شہزاد انجم برہانی کے اشعار
ابھی سے فلسفۂ ریگ زار کی باتیں
ابھی تو عشق کے مکتب میں حاضری ہوئی ہے
بلندی سے اتارا جا رہا ہوں
میں تعریفوں سے مارا جا رہا ہوں
زمانہ جن کی قیادت میں گامزن تھا وہ لوگ
بھٹک گئے تری آنکھوں کی رہنمائی میں
وہ پھول ہے تو اسے جان تک کرو محسوس
وہ چاند ہے تو اندھیرا بڑھا کے دیکھا جائے
ماجرا خیز کل اک خواب تھا دیکھا ہم نے
بیچ دریا میں تھے کشتی سے اترتے ہوئے لوگ
دل کی ہی کسی بات کو تحریر نہ کر پائے
لکھنے پہ جب آئے تھے تو کیا کیا نہیں لکھا
عرضی انصاف کی ہم نے بھی لگا رکھی ہے
دیکھیے ظل الٰہی ہمیں کب پوچھتے ہیں
کن گزر گاہوں کے ہیں گرد و غبار آنکھوں میں
روز پت جھڑ کے ہمیں خواب دکھاتی ہے ہوا
انجمؔ اعصاب سنبھالو ہے یہی رنگ بہار
بوئے شوق آنے لگی یار کی انگڑائی سے
وہاں بھی کوئی نہیں تھا خراب حالوں کا
میں ہو کے منبر و محراب سے نکل آیا
چاند کچھ دیر تیری چھت پہ رہے
پھر مرے جام میں اتر جائے
یہ کیا کہ خیالوں سے اڑی جاتی ہے خوشبو
میں نے تو ابھی تک اسے سوچا بھی نہیں ہے
عطائے شان کریمی عجیب ہوتی ہے
کنارا خود ہی تہہ آب سے نکل آیا
بجھے شرر ہیں ہوائے وصال کی زد پر
تری نظر کا اشارہ بتا رہا ہے مجھے
نہ آستین میں خنجر نہ لب پہ شیرینی
یہ کیسے عقل کے دشمن سے دوستی ہوئی ہے
تنک مزاج ہے ملحوظ یوں ادب رکھنا
بہت سنبھل کے تم اس کے لبوں پہ لب رکھنا