Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qamar Jalalvi's Photo'

قمر جلالوی

1887 - 1968 | کراچی, پاکستان

پاکستان کے استاد شاعر، کئی مقبول عام شعروں کے خالق

پاکستان کے استاد شاعر، کئی مقبول عام شعروں کے خالق

قمر جلالوی کے اشعار

13.7K
Favorite

باعتبار

نشیمن خاک ہونے سے وہ صدمہ دل کو پہنچا ہے

کہ اب ہم سے کوئی بھی روشنی دیکھی نہیں جاتی

ایسے میں وہ ہوں باغ ہو ساقی ہو اے قمرؔ

لگ جائیں چار چاند شب ماہتاب میں

روشن ہے میرا نام بڑا نامور ہوں میں

شاہد ہیں آسماں کے ستارے قمر ہوں میں

جگر کا داغ چھپاؤ قمرؔ خدا کے لئے

ستارے ٹوٹتے ہیں ان کے دیدۂ نم سے

نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تم نے

کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تم نے

آئیں ہیں وہ مزار پہ گھونگھٹ اتار کے

مجھ سے نصیب اچھے ہے میرے مزار کے

اس لئے آرزو چھپائی ہے

منہ سے نکلی ہوئی پرائی ہے

ہر وقت محویت ہے یہی سوچتا ہوں میں

کیوں برق نے جلایا مرا آشیاں نہ پوچھ

مدتیں ہوئیں اب تو جل کے آشیاں اپنا

آج تک یہ عالم ہے روشنی سے ڈرتا ہوں

وہ چار چاند فلک کو لگا چلا ہوں قمرؔ

کہ میرے بعد ستارے کہیں گے افسانے

ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم

آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے

جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کر آ نہ سکے

دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں

قمرؔ کسی سے بھی دل کا علاج ہو نہ سکا

ہم اپنا داغ دکھاتے رہے زمانے کو

یہی ہے گر خوشی تو رات بھر گنتے رہو تارے

قمرؔ اس چاندنی میں ان کا اب آنا تو کیا ہوگا

ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد

قمرؔ تم بگاڑو گے عادت کسی کی

قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی

چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو

مجھے میرے مٹنے کا غم ہے تو یہ ہے

تمہیں بے وفا کہہ رہا ہے زمانہ

جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے

چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے

روئیں گے دیکھ کر سب بستر کی ہر شکن کو

وہ حال لکھ چلا ہوں کروٹ بدل بدل کر

پوچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو

سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

نہ ہو رہائی قفس سے اگر نہیں ہوتی

نگاہ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی

ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں

یہ وہ تاریخ ہے بجلی گری تھی جب گلستاں پر

اگر آ جائے پہلو میں قمرؔ وہ ماہ کامل بھی

دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہوگی

بڑھا بڑھا کے جفائیں جھکا ہی دو گے کمر

گھٹا گھٹا کے قمرؔ کو ہلال کر دو گے

تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول

صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار

شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام

گیسوؤں کو کھول دو سورج چھپانے کے لئے

دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام

ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو

قمرؔ اپنے داغ دل کی وہ کہانی میں نے چھیڑی

کہ سنا کئے ستارے مرا رات بھر فسانہ

میں ان سب میں اک امتیازی نشاں ہوں فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے

قمرؔ بزم انجم کی مجھ کو میسر صدارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

تم میں جو بات ہے وہ بات نہیں آئی ہے

کیا یہ تصویر کسی اور سے کھنچوائی ہے

شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ

اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

شب کو مرا جنازہ جائے گا یوں نکل کر

رہ جائیں گے سحر کو دشمن بھی ہاتھ مل کر

خون ہوتا ہے سحر تک مرے ارمانوں کا

شام وعدہ جو وہ پابند حنا ہوتا ہے

رسوا کرے گی دیکھ کے دنیا مجھے قمرؔ

اس چاندنی میں ان کو بلانے کو جائے کون

سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے

کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو

نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

اب آگے اس میں تمہارا بھی نام آئے گا

جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو

قمرؔ افشاں چنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقہ سے

ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں

سرمے کا تل بنا کے رخ لا جواب میں

نقطہ بڑھا رہے ہو خدا کی کتاب میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے