ارمان جودھ پوری کے اشعار
ساری دنیا تری ہونٹوں کی ہنسی میں گم ہے
کون دیکھے گا مری آنکھ کے پانی کی طرف
پیاسی بہت تھیں حسرتیں لو آج مر گئیں
بارش کا انتظار تھا وہ بھی نہیں رہا
زندگی زلف نہیں تھی جو سنواری جاتی
زندگی اور الجھتی گئی سلجھانے میں
آخر ترے سوال کا میں کیا جواب دوں
اے میرے ہم خیال ذرا سوچنے تو دے
پہلے پہلے خوب محبت کی ہم نے
پھر ہم دونوں نے یہ رستہ چھوڑ دیا
میں نے دیکھا تو نہیں میرؔ کا دیوان مگر
جانتا ہوں تری آنکھوں کی طرح ہوتا ہے
-
موضوع : میر تقی میر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس کی آنکھوں سے نیند غائب ہے
اور میں شک کے دائرے میں ہوں
وہ جس سے موت نکالے گی ایک دن آ کر
تمہیں خبر ہے اسی زندگی کی قید میں ہوں
دوریاں تم نے ہی بڑھائی تھیں
ہم تو اپنی جگہ پہ ٹھہرے ہیں
کیوں ظلم کرتی ہے دنیا ہم عشق والوں پر
ہم عشق کرتے ہیں کوئی خطا نہیں کرتے
میں نے اکھاڑ پھینکے ہیں بازو سے ایسے پر
جو بوجھ تھے کبھی مری اونچی اڑان میں
کیا ہماری بات ہم کس کام کے
سب بھروسے چل رہا شری رام کے
کام ہو تو کام کرنا وقت ہو تو شاعری
نوکری اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ
آخری نقصان تھا تو زندگی کا
میں نے تیرے بعد کچھ کھویا نہیں ہے
آنکھوں نے آنسوؤں کا تبرک لٹا دیا
دل کے مزار پر تری یادوں کا عرس ہے
کیا ضرورت ہے زمانہ میں کسی دشمن کی
دوست کیا کم ہیں یہاں آگ لگانے والے
دو بار لبوں نے بھی آپس میں لئے بوسے
جب نام لیا میں نے اک بار محمد کا
کم سے کم اتنا اشارہ تو کرو جاتے ہوئے
تم کبھی یاد جو آؤ تو کسے یاد کریں
زندگی کے سب سہارے آپ کے
ہم بھی ہیں سارے کے سارے آپ کے
کیا ہماری بات ہم کس کام کے
سب بھروسے چل رہا شری رام کے
ہے میرے دل کو انا اس قدر عزیز کے وہ
تڑپنے بھی نہیں دیتا ہے آہ بھر کے مجھے
جس کے دم سے تھی جسم کی رونق
اس اداسی کے ہاتھ پیلے ہوئے
لبوں پہ ناچ رہا تھا مگر کہا نہ گیا
میں ایسا حرف ہوں جس کو کبھی لکھا نہ گیا
لڑکیاں ہیں بس اتنی ہی آزاد
مچھلیاں جتنی مرتبانوں میں
معجزہ اور بھلا اس سے بڑا کیا ہوگا
درد اس دل میں ہے گرتے ہیں تمہارے آنسو
آخری نقصان تھا تو زندگی کا
میں نے تیرے بعد کچھ کھویا نہیں ہے
جس کے دم سے تھی جسم کی رونق
اس اداسی کے ہاتھ پیلے ہوئے
دو بار لبوں نے بھی آپس میں لئے بوسے
جب نام لیا میں نے اک بار محمد کا
روح بدن ذرا سی تو گھبرانی چاہیئے
تھوڑی بہت تو شرم تمہیں آنی چاہیئے
زندگی کے سب سہارے آپ کے
ہم بھی ہیں سارے کے سارے آپ کے
ہے میرے دل کو انا اس قدر عزیز کہ وہ
تڑپنے بھی نہیں دیتا ہے آہ بھر کے مجھے
کام ہو تو کام کرنا وقت ہو تو شاعری
نوکری اپنی جگہ ہے شاعری اپنی جگہ
لڑکیاں ہیں بس اتنی ہی آزاد
مچھلیاں جتنی مرتبانوں میں
آنکھوں نے آنسوؤں کا تبرک لٹا دیا
دل کے مزار پر تری یادوں کا عرس ہے
کم سے کم اتنا اشارہ تو کرو جاتے ہوئے
تم کبھی یاد جو آؤ تو کسے یاد کریں