اظہر ادیب کے اشعار
ہم نے گھر کی سلامتی کے لئے
خود کو گھر سے نکال رکھا ہے
-
موضوع : گھر
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تو اپنی مرضی کے سبھی کردار آزما لے
مرے بغیر اب تری کہانی نہیں چلے گی
ہم ان کی آس پہ عمریں گزار دیتے ہیں
وہ معجزے جو کبھی رونما نہیں ہوتے
ذرا سی دیر تجھے آئنہ دکھایا ہے
ذرا سی بات پر اتنے خفا نہیں ہوتے
لہجے اور آواز میں رکھا جاتا ہے
اب تو زہر الفاظ میں رکھا جاتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اسی نے سب سے پہلے ہار مانی
وہی سب سے دلاور لگ رہا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سمجھ میں آ تو سکتی ہے صبا کی گفتگو بھی
مگر اس کے لیے معصوم ہونا لازمی ہے
ہمیں روکو نہیں ہم نے بہت سے کام کرنے ہیں
کسی گل میں مہکنا ہے کسی بادل میں رہنا ہے
میں اس کا نام لے بیٹھا تھا اک دن
زمانے کو بہانہ چاہئے تھا
یہ شخص جو تجھے آدھا دکھائی دیتا ہے
اس آدھے شخص کو اپنا بنا کے دیکھ کبھی
ایک لمحے کو سہی اس نے مجھے دیکھا تو ہے
آج کا موسم گزشتہ روز سے اچھا تو ہے
ہوا کو ضد کہ اڑائے گی دھول ہر صورت
ہمیں یہ دھن ہے کہ آئینہ صاف کرنا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب بھی چاہوں تیرا چہرا سوچ سکوں
بس اتنی سی بات مرے امکان میں رکھ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بے خوابی کب چھپ سکتی ہے کاجل سے بھی
جاگنے والی آنکھ میں لالی رہ جاتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
صبح کیسی ہے وہاں شام کی رنگت کیا ہے
اب ترے شہر میں حالات کی صورت کیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کسی کی ذات میں ضم ہو گیا ہوں
میں اپنے آپ میں غم ہو گیا ہوں
اس لیے میں نے محافظ نہیں رکھے اپنے
مرے دشمن مرے اس جسم سے باہر کم ہیں
دیر لگتی ہے بہت لوٹ کے آتے آتے
اور وہ اتنے میں ہمیں بھول چکا ہوتا ہے
سارے منظر میں سمایا ہوا لگتا ہے مجھے
کوئی اس شہر میں آیا ہوا لگتا ہے مجھے
لوگو ہم تو ایک ہی صورت میں ہتھیار اٹھاتے ہیں
جب دشمن ہو اپنے جیسا خود سر بھی اور ہمسر بھی
اے شہر ستم چھوڑ کے جاتے ہوئے لوگو
اب راہ میں کوئی بھی مدینہ نہیں آتا
میں جس لمحے کو زندہ کر رہا ہوں مدتوں سے
وہی لمحہ مرا انکار کرنا چاہتا ہے
جو زندگی کی مانگ سجاتے رہے سدا
قسطوں میں بانٹ کر انہیں جینا دیا گیا
کبھی اس سے دعا کی کھیتیاں سیراب کرنا
جو پانی آنکھ کے اندر کہیں ٹھہرا ہوا ہے
دونوں ہاتھوں سے چھپا رکھا ہے منہ
آئنے کے وار سے ڈرتا ہوں میں
ہمارے نام کی تختی بھی ان پہ لگ نہ سکی
لہو میں گوندھ کے مٹی جو گھر بنائے گئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شب بھر آنکھ میں بھیگا تھا
پورے دن میں سوکھا خواب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اتنا بھی انحصار مرے سائے پر نہ کر
کیا جانے کب یہ موم کی دیوار گر پڑے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دشت شب میں پتا ہی نہیں چل سکا
اپنی آنکھیں گئیں یا ستارے گئے
اسے بام پذیرائی پہ کیسے چھوڑ دوں اب
یہی تنہائی تو میرے لیے سیڑھی بنی ہے
غزل اس کے لئے کہتے ہیں لیکن درحقیقت ہم
گھنے جنگل میں کرنوں کے لئے رستہ بناتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میرے ہرے وجود سے پہچان اس کی تھی
بے چہرہ ہو گیا ہے وہ جب سے جھڑا ہوں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ