Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Azhar Adeeb's Photo'

اظہر ادیب

1949 | گھوٹکی, پاکستان

شاعر،انشائیہ نگار اور ادیب

شاعر،انشائیہ نگار اور ادیب

اظہر ادیب کے اشعار

2.7K
Favorite

باعتبار

ہم نے گھر کی سلامتی کے لئے

خود کو گھر سے نکال رکھا ہے

تو اپنی مرضی کے سبھی کردار آزما لے

مرے بغیر اب تری کہانی نہیں چلے گی

نکل آیا ہوں آگے اس جگہ سے

جہاں سے لوٹ جانا چاہیے تھا

ہم ان کی آس پہ عمریں گزار دیتے ہیں

وہ معجزے جو کبھی رونما نہیں ہوتے

لہجے اور آواز میں رکھا جاتا ہے

اب تو زہر الفاظ میں رکھا جاتا ہے

ذرا سی دیر تجھے آئنہ دکھایا ہے

ذرا سی بات پر اتنے خفا نہیں ہوتے

اسی نے سب سے پہلے ہار مانی

وہی سب سے دلاور لگ رہا تھا

ہمیں روکو نہیں ہم نے بہت سے کام کرنے ہیں

کسی گل میں مہکنا ہے کسی بادل میں رہنا ہے

ہمارے نام کی تختی بھی ان پہ لگ نہ سکی

لہو میں گوندھ کے مٹی جو گھر بنائے گئے

یہ شخص جو تجھے آدھا دکھائی دیتا ہے

اس آدھے شخص کو اپنا بنا کے دیکھ کبھی

سمجھ میں آ تو سکتی ہے صبا کی گفتگو بھی

مگر اس کے لیے معصوم ہونا لازمی ہے

دشت شب میں پتا ہی نہیں چل سکا

اپنی آنکھیں گئیں یا ستارے گئے

اس لیے میں نے محافظ نہیں رکھے اپنے

مرے دشمن مرے اس جسم سے باہر کم ہیں

ہوا کو ضد کہ اڑائے گی دھول ہر صورت

ہمیں یہ دھن ہے کہ آئینہ صاف کرنا ہے

میں اس کا نام لے بیٹھا تھا اک دن

زمانے کو بہانہ چاہئے تھا

ایک لمحے کو سہی اس نے مجھے دیکھا تو ہے

آج کا موسم گزشتہ روز سے اچھا تو ہے

کسی کی ذات میں ضم ہو گیا ہوں

میں اپنے آپ میں غم ہو گیا ہوں

جب بھی چاہوں تیرا چہرا سوچ سکوں

بس اتنی سی بات مرے امکان میں رکھ

بے خوابی کب چھپ سکتی ہے کاجل سے بھی

جاگنے والی آنکھ میں لالی رہ جاتی ہے

دیر لگتی ہے بہت لوٹ کے آتے آتے

اور وہ اتنے میں ہمیں بھول چکا ہوتا ہے

لوگو ہم تو ایک ہی صورت میں ہتھیار اٹھاتے ہیں

جب دشمن ہو اپنے جیسا خود سر بھی اور ہمسر بھی

سارے منظر میں سمایا ہوا لگتا ہے مجھے

کوئی اس شہر میں آیا ہوا لگتا ہے مجھے

اے شہر ستم چھوڑ کے جاتے ہوئے لوگو

اب راہ میں کوئی بھی مدینہ نہیں آتا

صبح کیسی ہے وہاں شام کی رنگت کیا ہے

اب ترے شہر میں حالات کی صورت کیا ہے

میں جس لمحے کو زندہ کر رہا ہوں مدتوں سے

وہی لمحہ مرا انکار کرنا چاہتا ہے

دونوں ہاتھوں سے چھپا رکھا ہے منہ

آئنے کے وار سے ڈرتا ہوں میں

جو زندگی کی مانگ سجاتے رہے سدا

قسطوں میں بانٹ کر انہیں جینا دیا گیا

آج نکلے یاد کی زنبیل سے

مور کے ٹوٹے ہوئے دو چار پر

اتنا بھی انحصار مرے سائے پر نہ کر

کیا جانے کب یہ موم کی دیوار گر پڑے

کبھی اس سے دعا کی کھیتیاں سیراب کرنا

جو پانی آنکھ کے اندر کہیں ٹھہرا ہوا ہے

شب بھر آنکھ میں بھیگا تھا

پورے دن میں سوکھا خواب

اسے بام پذیرائی پہ کیسے چھوڑ دوں اب

یہی تنہائی تو میرے لیے سیڑھی بنی ہے

میرے ہرے وجود سے پہچان اس کی تھی

بے چہرہ ہو گیا ہے وہ جب سے جھڑا ہوں میں

غزل اس کے لئے کہتے ہیں لیکن درحقیقت ہم

گھنے جنگل میں کرنوں کے لئے رستہ بناتے ہیں

Recitation

بولیے