Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Dushyant Kumar's Photo'

بیسوی صدی کے نامور ہندی شاعراور فکشن نویس، اپنی مقبول عام نظموں کے ساتھ ہندی میں غزل گوئی کے لیے جانے جاتے ہیں

بیسوی صدی کے نامور ہندی شاعراور فکشن نویس، اپنی مقبول عام نظموں کے ساتھ ہندی میں غزل گوئی کے لیے جانے جاتے ہیں

دشینت کمار کے اشعار

27.4K
Favorite

باعتبار

کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا

ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو

میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی

ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئے

صرف ہنگامہ کھڑا کرنا مرا مقصد نہیں

میری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہئے

کہاں تو طے تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لیے

کہاں چراغ میسر نہیں شہر کے لیے

تو کسی ریل سی گزرتی ہے

میں کسی پل سا تھرتھراتا ہوں

تمہارے پاؤں کے نیچے کوئی زمین نہیں

کمال یہ ہے کہ پھر بھی تمہیں یقین نہیں

زندگی جب عذاب ہوتی ہے

عاشقی کامیاب ہوتی ہے

ایک عادت سی بن گئی ہے تو

اور عادت کبھی نہیں جاتی

یہاں تک آتے آتے سوکھ جاتی ہے کئی ندیاں

مجھے معلوم ہے پانی کہاں ٹھہرا ہوا ہوگا

نہ ہو قمیض تو پاؤں سے پیٹ ڈھک لیں گے

یہ لوگ کتنے مناسب ہیں اس سفر کے لیے

یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہوگا

میں سجدے میں نہیں تھا آپ کو دھوکا ہوا ہوگا

لہو لہان نظاروں کا ذکر آیا تو

شریف لوگ اٹھے دور جا کے بیٹھ گئے

نظر نواز نظارہ بدل نہ جائے کہیں

ذرا سی بات ہے منہ سے نکل نہ جائے کہیں

مصلحت آمیز ہوتے ہیں سیاست کے قدم

تو نہ سمجھے گا سیاست تو ابھی نادان ہے

اب تو اس تالاب کا پانی بدل دو

یہ کنول کے پھول کمہلانے لگے ہیں

ہو گئی ہے پیر پروت سی پگھلنی چاہئے

اس ہمالے سے کوئی گنگا نکلنی چاہئے

میں جسے اوڑھتا بچھاتا ہوں

وہ غزل آپ کو سناتا ہوں

وو آدمی نہیں ہے مکمل بیان ہے

ماتھے پہ اس کے چوٹ کا گہرا نشان ہے

ترا نظام ہے سل دے زبان شاعر کو

یہ احتیاط ضروری ہے اس بحر کے لیے

یہ سوچ کر کہ درختوں میں چھاؤں ہوتی ہے

یہاں ببول کے سائے میں آ کے بیٹھ گئے

یہ لوگ ہومو ہون میں یقین رکھتے ہیں

چلو یہاں سے چلیں ہاتھ جل نہ جائے کہیں

ایک قبرستان میں گھر مل رہا ہے

جس میں تہہ خانوں سے تہہ خانے لگے ہیں

Recitation

بولیے