دشینت کمار کے اشعار
کیسے آکاش میں سوراخ نہیں ہو سکتا
ایک پتھر تو طبیعت سے اچھالو یارو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میرے سینے میں نہیں تو تیرے سینے میں سہی
ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئے
صرف ہنگامہ کھڑا کرنا مرا مقصد نہیں
میری کوشش ہے کہ یہ صورت بدلنی چاہئے
کہاں تو طے تھا چراغاں ہر ایک گھر کے لیے
کہاں چراغ میسر نہیں شہر کے لیے
-
موضوع : مشہور اشعار
تمہارے پاؤں کے نیچے کوئی زمین نہیں
کمال یہ ہے کہ پھر بھی تمہیں یقین نہیں
زندگی جب عذاب ہوتی ہے
عاشقی کامیاب ہوتی ہے
یہاں تک آتے آتے سوکھ جاتی ہے کئی ندیاں
مجھے معلوم ہے پانی کہاں ٹھہرا ہوا ہوگا
نہ ہو قمیض تو پاؤں سے پیٹ ڈھک لیں گے
یہ لوگ کتنے مناسب ہیں اس سفر کے لیے
یہ سارا جسم جھک کر بوجھ سے دہرا ہوا ہوگا
میں سجدے میں نہیں تھا آپ کو دھوکا ہوا ہوگا
لہو لہان نظاروں کا ذکر آیا تو
شریف لوگ اٹھے دور جا کے بیٹھ گئے
نظر نواز نظارہ بدل نہ جائے کہیں
ذرا سی بات ہے منہ سے نکل نہ جائے کہیں
مصلحت آمیز ہوتے ہیں سیاست کے قدم
تو نہ سمجھے گا سیاست تو ابھی نادان ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب تو اس تالاب کا پانی بدل دو
یہ کنول کے پھول کمہلانے لگے ہیں
ہو گئی ہے پیر پروت سی پگھلنی چاہئے
اس ہمالے سے کوئی گنگا نکلنی چاہئے
وو آدمی نہیں ہے مکمل بیان ہے
ماتھے پہ اس کے چوٹ کا گہرا نشان ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ترا نظام ہے سل دے زبان شاعر کو
یہ احتیاط ضروری ہے اس بحر کے لیے
یہ سوچ کر کہ درختوں میں چھاؤں ہوتی ہے
یہاں ببول کے سائے میں آ کے بیٹھ گئے
یہ لوگ ہومو ہون میں یقین رکھتے ہیں
چلو یہاں سے چلیں ہاتھ جل نہ جائے کہیں
ایک قبرستان میں گھر مل رہا ہے
جس میں تہہ خانوں سے تہہ خانے لگے ہیں