Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Irfan Siddiqi's Photo'

عرفان صدیقی

1939 - 2004 | لکھنؤ, انڈیا

اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف

اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف

عرفان صدیقی کی ٹاپ ٢٠ شاعری

ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر

لیجئے بیچ میں پھر دیدۂ تر آ گئے ہیں

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی

دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد

شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈھتا رہتا ہے استعارہ کوئی

کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب

سو ہم جواب تمہارے سوال ہی کے تو ہیں

میں چاہتا ہوں یہیں سارے فیصلے ہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی

ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے

اپنے کس کام میں لائے گا بتاتا بھی نہیں

ہم کو اوروں پہ گنوانا بھی نہیں چاہتا ہے

رات کو جیت تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ

کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں

کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں

ریت پر تھک کے گرا ہوں تو ہوا پوچھتی ہے

آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر

جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا جانتا ہوں میں

جو کچھ نہیں ہوا وہ بتا کیوں نہیں ہوا

ہمارے دل کو اک آزار ہے ایسا نہیں لگتا

کہ ہم دفتر بھی جاتے ہیں غزل خوانی بھی کرتے ہیں

شعلۂ عشق بجھانا بھی نہیں چاہتا ہے

وہ مگر خود کو جلانا بھی نہیں چاہتا ہے

بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے

اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

ہوشیاری دل نادان بہت کرتا ہے

رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے