Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہجر پر اشعار

اگر آپ ہجر کی حالت

میں ہیں تو یہ شاعری آپ کےلئے خاص ہے ۔ اس شاعری کو پڑھتے ہوئے ہجر کی پیڑا ایک مزے دار تجربے میں بدلنے لگے گی ۔ یہ شاعری پڑھئے ، ہجر اور ہجر ذدہ دلوں کا تماشا دیکھئے ۔

ہم کہاں اور تم کہاں جاناں

ہیں کئی ہجر درمیاں جاناں

جون ایلیا

شکوۂ ہجر پہ سر کاٹ کے فرماتے ہیں

پھر کروگے کبھی اس منہ سے شکایت میری

فانی بدایونی

تم نہیں پاس کوئی پاس نہیں

اب مجھے زندگی کی آس نہیں

جگر بریلوی

روتے پھرتے ہیں ساری ساری رات

اب یہی روزگار ہے اپنا

میر تقی میر

نیند آتی نہیں تو صبح تلک

گرد مہتاب کا سفر دیکھو

ناصر کاظمی

آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت

مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی

اکبر الہ آبادی

مری نظر میں وہی موہنی سی مورت ہے

یہ رات ہجر کی ہے پھر بھی خوبصورت ہے

خلیل الرحمن اعظمی

دیکھ کر طول شب ہجر دعا کرتا ہوں

وصل کے روز سے بھی عمر مری کم ہو جائے

مرزارضا برق ؔ

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے

اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے

حفیظ جالندھری

وہ بھلا کیسے بتائے کہ غم ہجر ہے کیا

جس کو آغوش محبت کبھی حاصل نہ ہوا

حبیب احمد صدیقی

وہ آ رہے ہیں وہ آتے ہیں آ رہے ہوں گے

شب فراق یہ کہہ کر گزار دی ہم نے

فیض احمد فیض

یوں گزرتے ہیں ہجر کے لمحے

جیسے وہ بات کرتے جاتے ہیں

مہیش چندر نقش

کیسی بپتا پال رکھی ہے قربت کی اور دوری کی

خوشبو مار رہی ہے مجھ کو اپنی ہی کستوری کی

نعیم سرمد

ملنے کی یہ کون گھڑی تھی

باہر ہجر کی رات کھڑی تھی

احمد مشتاق

کسی کے ہجر میں جینا محال ہو گیا ہے

کسے بتائیں ہمارا جو حال ہو گیا ہے

اجمل سراج

گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن

بہت اداس بہت بے قرار گزرے گی

نامعلوم

بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات رات ہوئی

فراق گورکھپوری

ہر عشق کے منظر میں تھا اک ہجر کا منظر

اک وصل کا منظر کسی منظر میں نہیں تھا

عقیل عباس جعفری

تمہارا ہجر منا لوں اگر اجازت ہو

میں دل کسی سے لگا لوں اگر اجازت ہو

جون ایلیا

میں تیرے ہجر میں جینے سے ہو گیا تھا اداس

پہ گرم جوشی سے کیا کیا منایا اشک مرا

باقر آگاہ ویلوری

کہنے کو غم ہجر بڑا دشمن جاں ہے

پر دوست بھی اس دوست سے بہتر نہیں ملتا

نصیر ترابی

تاروں کا گو شمار میں آنا محال ہے

لیکن کسی کو نیند نہ آئے تو کیا کرے

حامد اللہ افسر

مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے

مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہیئے بہانہ

جگر مراد آبادی

جاگتا ہوں میں ایک اکیلا دنیا سوتی ہے

کتنی وحشت ہجر کی لمبی رات میں ہوتی ہے

شہریار

اسے خبر تھی کہ ہم وصال اور ہجر اک ساتھ چاہتے ہیں

تو اس نے آدھا اجاڑ رکھا ہے اور آدھا بنا دیا ہے

فرحت احساس

عظیم لوگ تھے ٹوٹے تو اک وقار کے ساتھ

کسی سے کچھ نہ کہا بس اداس رہنے لگے

اقبال اشہر

دو گھڑی اس سے رہو دور تو یوں لگتا ہے

جس طرح سایۂ دیوار سے دیوار جدا

احمد فراز

ملنا تھا اتفاق بچھڑنا نصیب تھا

وہ اتنی دور ہو گیا جتنا قریب تھا

انجم رہبر

کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہوگی

سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سحر ہوگی

فیض احمد فیض

امن تھا پیار تھا محبت تھا

رنگ تھا نور تھا نوا تھا فراق

حبیب جالب

میں رو پڑوں گا بہت بھینچ کے گلے نہ لگا

میں پہلے جیسا نہیں ہوں کسی کا دکھ ہے مجھے

قمر عباس قمر

جدائی کی رتوں میں صورتیں دھندلانے لگتی ہیں

سو ایسے موسموں میں آئنہ دیکھا نہیں کرتے

حسن عباس رضا

ہجر کی رات یہ ہر ڈوبتے تارے نے کہا

ہم نہ کہتے تھے نہ آئیں گے وہ آئے تو نہیں

علی جواد زیدی

یوں زندگی گزار رہا ہوں ترے بغیر

جیسے کوئی گناہ کئے جا رہا ہوں میں

جگر مراد آبادی

وصل کا گل نہ سہی ہجر کا کانٹا ہی سہی

کچھ نہ کچھ تو مری وحشت کا صلہ دے مجھ کو

مرغوب علی

فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا

کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا

امیر مینائی

پیاسا مت جلا ساقی مجھے گرمی سیں ہجراں کی

شتابی لا شراب خام ہم نے دل کو بھونا ہے

عبدالوہاب یکروؔ

تجھ بن ساری عمر گزاری

لوگ کہیں گے تو میرا تھا

ناصر کاظمی

آج نہ جانے راز یہ کیا ہے

ہجر کی رات اور اتنی روشن

جگر مراد آبادی

تو ہی بتا دے کیسے کاٹوں

رات اور ایسی کالی رات

ذکی کاکوروی

ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے

سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے

ثاقب لکھنوی

کہہ دو یہ کوہ کن سے کہ مرنا نہیں کمال

مر مر کے ہجر یار میں جینا کمال ہے

جلیل مانک پوری

اس قدر مسلسل تھیں شدتیں جدائی کی

آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی

احمد فراز

بہ پاس دل جسے اپنے لبوں سے بھی چھپایا تھا

مرا وہ راز تیرے ہجر نے پہنچا دیا سب تک

قتیل شفائی

آ کہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں

جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں

جگر مراد آبادی

تمہارے ہجر میں آنکھیں ہماری مدت سے

نہیں یہ جانتیں دنیا میں خواب ہے کیا چیز

نظیر اکبرآبادی

لگی رہتی ہے اشکوں کی جھڑی گرمی ہو سردی ہو

نہیں رکتی کبھی برسات جب سے تم نہیں آئے

انور شعور

شبان ہجراں دراز چوں زلف روز وصلت چو عمر کوتاہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

امیر خسرو

خود چلے آؤ یا بلا بھیجو

رات اکیلے بسر نہیں ہوتی

مرزا محمد ہادی عزیز لکھنوی

بڑی ہی کربناک تھی وہ پہلی رات ہجر کی

دوبارہ دل میں ایسا درد آج تک نہیں ہوا

عقیل نعمانی

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے