ترغیبی پر اشعار
ترغیبی شاعری زندگی کی
مشکل گھڑیوں میں ایک سہارے کےطور پرسامنےآتی ہے اوراسے پڑھ کرایک حوصلہ ملتا ہے ۔ یہ مشکل گھڑیاں عشق میں ہجرکی بھی ہوسکتی ہیں اورعام زندگی سے متعلق بھی ۔ یہ شاعری زندگی کے ان تمام مراحل سے گزرنے اورایک روشنی دریافت کرلینے کی قوت پیدا کرتی ہے۔
کھلے ملتے ہیں مجھ کو در ہمیشہ
مرے ہاتھوں میں دستک بھر گئی ہے
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
زندگی نام ہے اک جہد مسلسل کا فناؔ
راہرو اور بھی تھک جاتا ہے آرام کے بعد
-
موضوع : زندگی
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
-
موضوع : مشہور اشعار
سارے پتھر نہیں ہوتے ہیں ملامت کا نشاں
وہ بھی پتھر ہے جو منزل کا نشاں دیتا ہے
ماضیٔ مرحوم کی ناکامیوں کا ذکر چھوڑ
زندگی کی فرصت باقی سے کوئی کام لے
وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو
حوصلے مشکلوں میں پلتے ہیں
دشمنی جم کر کرو لیکن یہ گنجائش رہے
جب کبھی ہم دوست ہو جائیں تو شرمندہ نہ ہوں
کشتیاں سب کی کنارے پہ پہنچ جاتی ہیں
ناخدا جن کا نہیں ان کا خدا ہوتا ہے
میں مر جاؤں تو میری ایک الگ پہچان لکھ دینا
لہو ث میری پیشانی پے ہندستان لکھ دینا
ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن
طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے
تدبیر کے دست رنگیں سے تقدیر درخشاں ہوتی ہے
قدرت بھی مدد فرماتی ہے جب کوشش انساں ہوتی ہے
تیر کھانے کی ہوس ہے تو جگر پیدا کر
سرفروشی کی تمنا ہے تو سر پیدا کر
بچوں کے چھوٹے ہاتھوں کو چاند ستارے چھونے دو
چار کتابیں پڑھ کر یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں گے
-
موضوع : بچپن شاعری
انہی غم کی گھٹاؤں سے خوشی کا چاند نکلے گا
اندھیری رات کے پردے میں دن کی روشنی بھی ہے
-
موضوع : حوصلہ
صدا ایک ہی رخ نہیں ناؤ چلتی
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
-
موضوع : حوصلہ
ادھر فلک کو ہے ضد بجلیاں گرانے کی
ادھر ہمیں بھی ہے دھن آشیاں بنانے کی
اس ملک کی سرحد کو کوئی چھو نہیں سکتا
جس ملک کی سرحد کی نگہبان ہیں آنکھیں
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
-
موضوعات : مشہور اشعاراور 1 مزید
گھر سے مسجد ہے بہت دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
-
موضوعات : فلمی اشعاراور 1 مزید
کسی کو بے سبب شہرت نہیں ملتی ہے اے واحدؔ
انہیں کے نام ہیں دنیا میں جن کے کام اچھے ہیں
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
منزلیں نہ بھولیں گے راہرو بھٹکنے سے
شوق کو تعلق ہی کب ہے پاؤں تھکنے سے
تمیز خواب و حقیقت ہے شرط بیداری
خیال عظمت ماضی کو چھوڑ حال کو دیکھ
-
موضوع : ماضی
کیفؔ پیدا کر سمندر کی طرح
وسعتیں خاموشیاں گہرائیاں
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موج حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
ہم بدلتے ہیں رخ ہواؤں کا
آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے
شہ زور اپنے زور میں گرتا ہے مثل برق
وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
تشریح
اس شعر میں کئی تلازمات ایسے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وسیم بریلوی شعر میں معنی کے ساتھ کیفیت پیدا کرنے کے فن سے واقف ہیں۔ ’جہاں‘ کی مناسبت سے ’وہیں‘، اور ان دونوں کی رعایت سے ’مکاں‘، ’چراغ‘ کی مناسبت سے ’روشنی‘ اور اس سے بڑھ کر کسی، یہ سب ایسے تلازمات ہیں جن سے شعر میں معنی آفرینی کا عنصر پیدا ہوا ہے۔
شعر کے معنیٔ قریب تو یہ ہوسکتے ہیں کہ چراغ اپنی روشنی سے کسی ایک مکاں کو روشن نہیں کرتا ہے، بلکہ جہاں جلتا ہے وہاں کی فضا کو منور کرتا ہے۔ اس شعر میں ایک لفظ ’مکاں‘مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ مکاں سے یہاں مراد محض کوئی خاص گھر نہیں بلکہ اسپیس ہے۔
اب آئیے شعر کے معنیٔ بعید پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دراصل شعر میں ’چراغ‘، ’روشنی‘ اور ’مکاں‘ کو استعاراتی حیثیت حاصل ہے۔ چراغ استعارہ ہے نیک اور بھلے آدمی کا، اس کی مناسبت سے روشنی استعارہ ہےنیکی اور بھلائی کا۔ اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نیک آدمی کسی خاص جگہ نیکی اور بھلائی پھیلانے کے لئے پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان کا کوئی خاص مکان نہیں ہوتا اور یہ اسپیس کے تصور سے بہت آگے کے لوگ ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ آدمی بھلا ہو۔ اگر ایسا ہے تو بھلائی ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔
شفق سوپوری
-
موضوعات : چراغاور 1 مزید
دشمنی لاکھ سہی ختم نہ کیجے رشتہ
دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہئے
کسو مشرب میں اور مذہب میں
ظلم اے مہرباں نہیں ہے درست
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے
-
موضوعات : پارلیمنٹاور 1 مزید
ان اندھیروں سے پرے اس شب غم سے آگے
اک نئی صبح بھی ہے شام الم سے آگے
دنیا میں وہی شخص ہے تعظیم کے قابل
جس شخص نے حالات کا رخ موڑ دیا ہو
بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو
کہاں تک چلو گے کنارے کنارے
-
موضوعات : حوصلہاور 1 مزید
مشکل کا سامنا ہو تو ہمت نہ ہاریے
ہمت ہے شرط صاحب ہمت سے کیا نہ ہو
پھول کر لے نباہ کانٹوں سے
آدمی ہی نہ آدمی سے ملے
کوشش بھی کر امید بھی رکھ راستہ بھی چن
پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر
حفیظؔ اپنی بولی محبت کی بولی
نہ اردو نہ ہندی نہ ہندوستانی
جہاں پہنچ کے قدم ڈگمگائے ہیں سب کے
اسی مقام سے اب اپنا راستا ہوگا
آباد اگر نہ دل ہو تو برباد کیجیے
گلشن نہ بن سکے تو بیاباں بنائیے
گمشدگی ہی اصل میں یارو راہ نمائی کرتی ہے
راہ دکھانے والے پہلے برسوں راہ بھٹکتے ہیں
راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے
جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر
یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی
-
موضوع : حوصلہ