aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

گھر پر اشعار

گھر کے مضمون کی زیادہ

تر صورتیں نئی زندگی کے عذاب کی پیدا کی ہوئی ہیں ۔ بہت سی مجبوریوں کے تحت ایک بڑی مخلوق کے حصے میں بے گھری آئی ۔ اس شاعری میں آپ دیکھیں گے کہ گھر ہوتے ہوئے بے گھری کا دکھ کس طرح اندر سے زخمی کئے جارہا ہے اور روح کا آزار بن گیا ہے ۔ ایک حساس شخص بھرے پرے گھر میں کیسے تنہائی کا شکار ہوتا ہے، یہ ہم سب کا اجتماعی دکھ ہے اس لئے اس شاعری میں جگہ جگہ خود اپنی ہی تصویریں نظر آتی ہیں ۔

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

افتخار عارف

تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد

شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو

عرفان صدیقی

پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا

وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا

احمد مشتاق

دوستوں سے ملاقات کی شام ہے

یہ سزا کاٹ کر اپنے گھر جاؤں گا

مظہر امام

گھر کی تعمیر تصور ہی میں ہو سکتی ہے

اپنے نقشے کے مطابق یہ زمیں کچھ کم ہے

شہریار

گریز پا ہے نیا راستہ کدھر جائیں

چلو کہ لوٹ کے ہم اپنے اپنے گھر جائیں

جمال اویسی

یہ دشت وہ ہے جہاں راستہ نہیں ملتا

ابھی سے لوٹ چلو گھر ابھی اجالا ہے

اختر سعید خان

اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے

مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن

ساقی فاروقی

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

مرزا غالب

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم

نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف

شہپر رسول

اپنا گھر آنے سے پہلے

اتنی گلیاں کیوں آتی ہیں

محمد علوی

در بہ در ٹھوکریں کھائیں تو یہ معلوم ہوا

گھر کسے کہتے ہیں کیا چیز ہے بے گھر ہونا

سلیم احمد

ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا

پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی

راجیندر منچندا بانی

پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے

اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں

ندا فاضلی

سنا ہے شہر کا نقشہ بدل گیا محفوظؔ

تو چل کے ہم بھی ذرا اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

احمد محفوظ

بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا

گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا

علیم مسرور

تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات

سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں

افتخار عارف

کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں

اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا

کیف بھوپالی

اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

کفیل آزر امروہوی

کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا

یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں

کفیل آزر امروہوی

گھر میں کیا آیا کہ مجھ کو

دیواروں نے گھیر لیا ہے

محمد علوی

اندر اندر کھوکھلے ہو جاتے ہیں گھر

جب دیواروں میں پانی بھر جاتا ہے

زیب غوری

شام کو تیرا ہنس کر ملنا

دن بھر کی اجرت ہوتی ہے

عشرت آفریں

ملا نہ گھر سے نکل کر بھی چین اے زاہدؔ

کھلی فضا میں وہی زہر تھا جو گھر میں تھا

ابو المجاہد زاہد

وہاں ہمارا کوئی منتظر نہیں پھر بھی

ہمیں نہ روک کہ گھر جانا چاہتے ہیں ہم

والی آسی

نیند مٹی کی مہک سبزے کی ٹھنڈک

مجھ کو اپنا گھر بہت یاد آ رہا ہے

عبد الاحد ساز

پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے

خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں

عبد اللہ جاوید

شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں

میں آنکھیں بند کر کے گھر کے اندر دیکھ لیتا ہوں

محمد علوی

میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ

دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے

غلام حسین ساجد

نئی نہیں ہے یہ تنہائی میرے حجرے کی

مرض ہو کوئی بھی ہے چارہ گر سے ڈر جانا

وجے شرما

مرنے کے بعد خود ہی بکھر جاؤں گا کہیں

اب قبر کیا بنے گی اگر گھر نہیں بنا

بیدل حیدری

خود بخود راہ لئے جاتی ہے اس کی جانب

اب کہاں تک ہے رسائی مجھے معلوم نہیں

محمد اعظم

زلزلہ آیا تو دیواروں میں دب جاؤں گا

لوگ بھی کہتے ہیں یہ گھر بھی ڈراتا ہے مجھے

اختر ہوشیارپوری

اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کے لیے

میں پاش پاش ہوا گھر نگار خانہ ہوا

نصیر ترابی

کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا

یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں

کفیل آزر امروہوی

مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے

میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے

افتخار عارف

اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کے لیے

میں پاش پاش ہوا گھر نگار خانہ ہوا

نصیر ترابی

سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں

کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا

ندا فاضلی

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

مرزا غالب

شام کو تیرا ہنس کر ملنا

دن بھر کی اجرت ہوتی ہے

عشرت آفریں

بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا

گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا

علیم مسرور

ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا

پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی

راجیندر منچندا بانی

اک گھر بنا کے کتنے جھمیلوں میں پھنس گئے

کتنا سکون بے سر و سامانیوں میں تھا

ریاض مجید

رات پڑے گھر جانا ہے

صبح تلک مر جانا ہے

محمد علوی

مرنے کے بعد خود ہی بکھر جاؤں گا کہیں

اب قبر کیا بنے گی اگر گھر نہیں بنا

بیدل حیدری

کبھی تو شام ڈھلے اپنے گھر گئے ہوتے

کسی کی آنکھ میں رہ کر سنور گئے ہوتے

بشیر بدر

شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں

میں آنکھیں بند کر کے گھر کے اندر دیکھ لیتا ہوں

محمد علوی

زلزلہ آیا تو دیواروں میں دب جاؤں گا

لوگ بھی کہتے ہیں یہ گھر بھی ڈراتا ہے مجھے

اختر ہوشیارپوری

اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی

وہ آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا

جوش ملیح آبادی

گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں

شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے

افتخار عارف

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے