گھر پر اشعار
گھر کے مضمون کی زیادہ
تر صورتیں نئی زندگی کے عذاب کی پیدا کی ہوئی ہیں ۔ بہت سی مجبوریوں کے تحت ایک بڑی مخلوق کے حصے میں بے گھری آئی ۔ اس شاعری میں آپ دیکھیں گے کہ گھر ہوتے ہوئے بے گھری کا دکھ کس طرح اندر سے زخمی کئے جارہا ہے اور روح کا آزار بن گیا ہے ۔ ایک حساس شخص بھرے پرے گھر میں کیسے تنہائی کا شکار ہوتا ہے، یہ ہم سب کا اجتماعی دکھ ہے اس لئے اس شاعری میں جگہ جگہ خود اپنی ہی تصویریں نظر آتی ہیں ۔
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
-
موضوع : مشہور اشعار
تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد
شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو
پتا اب تک نہیں بدلا ہمارا
وہی گھر ہے وہی قصہ ہمارا
گریز پا ہے نیا راستہ کدھر جائیں
چلو کہ لوٹ کے ہم اپنے اپنے گھر جائیں
یہ دشت وہ ہے جہاں راستہ نہیں ملتا
ابھی سے لوٹ چلو گھر ابھی اجالا ہے
اب گھر بھی نہیں گھر کی تمنا بھی نہیں ہے
مدت ہوئی سوچا تھا کہ گھر جائیں گے اک دن
مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
اپنا گھر آنے سے پہلے
اتنی گلیاں کیوں آتی ہیں
در بہ در ٹھوکریں کھائیں تو یہ معلوم ہوا
گھر کسے کہتے ہیں کیا چیز ہے بے گھر ہونا
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
-
موضوعات : شاماور 1 مزید
پہلے ہر چیز تھی اپنی مگر اب لگتا ہے
اپنے ہی گھر میں کسی دوسرے گھر کے ہم ہیں
سنا ہے شہر کا نقشہ بدل گیا محفوظؔ
تو چل کے ہم بھی ذرا اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
-
موضوع : شہر
بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا
گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں
-
موضوع : ہجرت
کیفؔ پردیس میں مت یاد کرو اپنا مکاں
اب کے بارش نے اسے توڑ گرایا ہوگا
-
موضوع : بارش
اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوع : شام
کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا
یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں
گھر میں کیا آیا کہ مجھ کو
دیواروں نے گھیر لیا ہے
شام کو تیرا ہنس کر ملنا
دن بھر کی اجرت ہوتی ہے
ملا نہ گھر سے نکل کر بھی چین اے زاہدؔ
کھلی فضا میں وہی زہر تھا جو گھر میں تھا
-
موضوع : سکون
وہاں ہمارا کوئی منتظر نہیں پھر بھی
ہمیں نہ روک کہ گھر جانا چاہتے ہیں ہم
نیند مٹی کی مہک سبزے کی ٹھنڈک
مجھ کو اپنا گھر بہت یاد آ رہا ہے
پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے
خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں
میں آنکھیں بند کر کے گھر کے اندر دیکھ لیتا ہوں
میری قسمت ہے یہ آوارہ خرامی ساجدؔ
دشت کو راہ نکلتی ہے نہ گھر آتا ہے
-
موضوع : قسمت
نئی نہیں ہے یہ تنہائی میرے حجرے کی
مرض ہو کوئی بھی ہے چارہ گر سے ڈر جانا
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
مرنے کے بعد خود ہی بکھر جاؤں گا کہیں
اب قبر کیا بنے گی اگر گھر نہیں بنا
زلزلہ آیا تو دیواروں میں دب جاؤں گا
لوگ بھی کہتے ہیں یہ گھر بھی ڈراتا ہے مجھے
اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کے لیے
میں پاش پاش ہوا گھر نگار خانہ ہوا
کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا
یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں
مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے
میں جس مکان میں رہتا ہوں اس کو گھر کر دے
-
موضوع : مشہور اشعار
اسی نے مجھ پہ اٹھائے ہیں سنگ جس کے لیے
میں پاش پاش ہوا گھر نگار خانہ ہوا
سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہیں نگاہیں
کیا بات ہے میں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا
-
موضوعات : جستجواور 2 مزید
شام کو تیرا ہنس کر ملنا
دن بھر کی اجرت ہوتی ہے
بھیڑ کے خوف سے پھر گھر کی طرف لوٹ آیا
گھر سے جب شہر میں تنہائی کے ڈر سے نکلا
-
موضوعات : تنہائیاور 1 مزید
ڈھلے گی شام جہاں کچھ نظر نہ آئے گا
پھر اس کے بعد بہت یاد گھر کی آئے گی
-
موضوعات : شاماور 1 مزید
اک گھر بنا کے کتنے جھمیلوں میں پھنس گئے
کتنا سکون بے سر و سامانیوں میں تھا
رات پڑے گھر جانا ہے
صبح تلک مر جانا ہے
مرنے کے بعد خود ہی بکھر جاؤں گا کہیں
اب قبر کیا بنے گی اگر گھر نہیں بنا
شریفے کے درختوں میں چھپا گھر دیکھ لیتا ہوں
میں آنکھیں بند کر کے گھر کے اندر دیکھ لیتا ہوں
زلزلہ آیا تو دیواروں میں دب جاؤں گا
لوگ بھی کہتے ہیں یہ گھر بھی ڈراتا ہے مجھے
اب تک نہ خبر تھی مجھے اجڑے ہوئے گھر کی
وہ آئے تو گھر بے سر و ساماں نظر آیا
گھر کی وحشت سے لرزتا ہوں مگر جانے کیوں
شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے
-
موضوعات : شاماور 1 مزید