aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بدن پر اشعار

عشقیہ شاعری میں بدن

بنیادی مرکزکے طورپرسامنے آتا ہے شاعروں نے بدن کواس کی پوری جمالیات کے ساتھ مختلف اور متنوع طریقوں سے برتا ہے لیکن بدن کے اس پورے تخلیقی بیانیے میں کہیں بھی بدن کی فحاشی نمایاں نہیں ہوتی ۔ اگرکہیں بدن کے اعضا کی بات ہے بھی تواس کا اظہاراسے بدن میں عام قسم کی دلچسپی سے اوپر اٹھا دیتا ہے ۔ بدن پر شاعری کا ایک دوسرا پہلوروح کے تناظرسے جڑا ہوا ہے ۔ بدن کی کثافت سے نکل کرروحا نی ترفع حاصل کرنا صوفی شعرا کا اہم موضوع رہا ہے۔

اف وہ مرمر سے تراشا ہوا شفاف بدن

دیکھنے والے اسے تاج محل کہتے ہیں

قتیل شفائی

بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں

کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں

عرفان صدیقی

کسی کلی کسی گل میں کسی چمن میں نہیں

وہ رنگ ہے ہی نہیں جو ترے بدن میں نہیں

فرحت احساس

تجھ سا کوئی جہان میں نازک بدن کہاں

یہ پنکھڑی سے ہونٹ یہ گل سا بدن کہاں

لالہ مادھو رام جوہر

کون بدن سے آگے دیکھے عورت کو

سب کی آنکھیں گروی ہیں اس نگری میں

حمیدہ شاہین

اک بوند زہر کے لیے پھیلا رہے ہو ہاتھ

دیکھو کبھی خود اپنے بدن کو نچوڑ کے

شہریار

گوندھ کے گویا پتی گل کی وہ ترکیب بنائی ہے

رنگ بدن کا تب دیکھو جب چولی بھیگے پسینے میں

میر تقی میر

خدا کے واسطے گل کو نہ میرے ہاتھ سے لو

مجھے بو آتی ہے اس میں کسی بدن کی سی

نظیر اکبرآبادی

وہ صاف گو ہے مگر بات کا ہنر سیکھے

بدن حسیں ہے تو کیا بے لباس آئے گا

امردیپ سنگھ

یاد آتے ہیں معجزے اپنے

اور اس کے بدن کا جادو بھی

جون ایلیا

راستہ دے کہ محبت میں بدن شامل ہے

میں فقط روح نہیں ہوں مجھے ہلکا نہ سمجھ

ساقی فاروقی

میں اس کے بدن کی مقدس کتاب

نہایت عقیدت سے پڑھتا رہا

محمد علوی

روح کو روح سے ملنے نہیں دیتا ہے بدن

خیر یہ بیچ کی دیوار گرا چاہتی ہے

عرفان صدیقی

نور بدن سے پھیلی اندھیرے میں چاندنی

کپڑے جو اس نے شب کو اتارے پلنگ پر

لالہ مادھو رام جوہر

ہائے وہ اس کا موج خیز بدن

میں تو پیاسا رہا لب جو بھی

جون ایلیا

کیا بدن ہے کہ ٹھہرتا ہی نہیں آنکھوں میں

بس یہی دیکھتا رہتا ہوں کہ اب کیا ہوگا

فرحت احساس

شرم بھی اک طرح کی چوری ہے

وہ بدن کو چرائے بیٹھے ہیں

انور دہلوی

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈھتا رہتا ہے استعارہ کوئی

عرفان صدیقی

اب دیکھتا ہوں میں تو وہ اسباب ہی نہیں

لگتا ہے راستے میں کہیں کھل گیا بدن

فرحت احساس

رکھ دی ہے اس نے کھول کے خود جسم کی کتاب

سادہ ورق پہ لے کوئی منظر اتار دے

پریم کمار نظر

وہ اپنے حسن کی خیرات دینے والے ہیں

تمام جسم کو کاسہ بنا کے چلنا ہے

احمد کمال پروازی

ڈھونڈتا ہوں میں زمیں اچھی سی

یہ بدن جس میں اتارا جائے

محمد علوی

میں تیری منزل جاں تک پہنچ تو سکتا ہوں

مگر یہ راہ بدن کی طرف سے آتی ہے

عرفان صدیقی

اندھیری راتوں میں دیکھ لینا

دکھائی دے گی بدن کی خوشبو

محمد علوی

جی چاہتا ہے ہاتھ لگا کر بھی دیکھ لیں

اس کا بدن قبا ہے کہ اس کی قبا بدن

پریم کمار نظر

لگتے ہی ہاتھ کے جو کھینچے ہے روح تن سے

کیا جانیں کیا وہ شے ہے اس کے بدن کے اندر

جرأت قلندر بخش

کیا بدن ہوگا کہ جس کے کھولتے جامے کا بند

برگ گل کی طرح ہر ناخن معطر ہو گیا

انعام اللہ خاں یقین

کیا سبب تیرے بدن کے گرم ہونے کا سجن

عاشقوں میں کون جلتا تھا گلے کس کے لگا

آبرو شاہ مبارک

چمن وہی کہ جہاں پر لبوں کے پھول کھلیں

بدن وہی کہ جہاں رات ہو گوارا بھی

اسعد بدایونی

ترے بدن کی خلاؤں میں آنکھ کھلتی ہے

ہوا کے جسم سے جب جب لپٹ کے سوتا ہوں

امیر امام

کیا کیا بدن صاف نظر آتے ہیں ہم کو

کیا کیا شکم و ناف نظر آتے ہیں ہم کو

مصحفی غلام ہمدانی

یہ بے کنار بدن کون پار کر پایا

بہے چلے گئے سب لوگ اس روانی میں

فرحت احساس

بدن پہ پیرہن خاک کے سوا کیا ہے

مرے الاؤ میں اب راکھ کے سوا کیا ہے

حمایت علی شاعر

اس وقت جان پیارے ہم پاوتے ہیں جی سا

لگتا ہے جب بدن سے تیرے بدن ہمارا

آبرو شاہ مبارک

بہت لمبی مسافت ہے بدن کی

مسافر مبتدی تھکنے لگا ہے

پریم کمار نظر

محبت کے ٹھکانے ڈھونڈھتی ہے

بدن کی لا مکانی موسموں میں

نصیر احمد ناصر

یوں ہے ڈلک بدن کی اس پیرہن کی تہہ میں

سرخی بدن کی جیسے چھلکے بدن کی تہہ میں

مصحفی غلام ہمدانی

یہ تیر یوں ہی نہیں دشمنوں تلک جاتے

بدن کا سارا کھچاؤ کماں پہ پڑتا ہے

افضل گوہر راؤ

ہر ایک ساز کو سازندگاں نہیں درکار

بدن کو ضربت مضراب سے علاقہ نہیں

ضیاء المصطفیٰ ترک

سرد راتوں کا تقاضہ تھا بدن جل جاے

پھر وہ اک آگ جو سینہ سے لگائی میں نے

قمر عباس قمر

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے