شکوے پر شاعری
عشق کی کہانی میں شکوہ شکایتوں کی اپنی ایک جگہ اور اپنا ایک لطف ہے ۔ اس موقع پر عاشق کاکمال یہ ہوتا ہے کہ وہ معشوق کے ظلم وجفا اور اس کی بے اعتنائی کا شکوہ اس طور پر کرتا ہے کہ معشوق مدعا بھی پا جائے اور عاشق بدنام بھی نہ ہو ۔ عشق کی کہانی کا یہ دلچسپ حصہ ہمارے اس انتخاب میں پڑھئے ۔
گلا بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی
وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ
-
موضوعات : عشقاور 1 مزید
غیروں سے کہا تم نے غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا
-
موضوع : مشہور اشعار
کیسے کہیں کہ تجھ کو بھی ہم سے ہے واسطہ کوئی
تو نے تو ہم سے آج تک کوئی گلہ نہیں کیا
کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری
when does she ever heed my state
and that too then when I narrate
کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے
-
موضوعات : درداور 2 مزید
بڑا مزہ ہو جو محشر میں ہم کریں شکوہ
وہ منتوں سے کہیں چپ رہو خدا کے لیے
کہنے دیتی نہیں کچھ منہ سے محبت میری
لب پہ رہ جاتی ہے آ آ کے شکایت میری
from voicing my emotions, love makes me refrain
grievances come to my lips but silent there remain
محبت ہی میں ملتے ہیں شکایت کے مزے پیہم
محبت جتنی بڑھتی ہے، شکایت ہوتی جاتی ہے
-
موضوعات : عشقاور 2 مزید
آرزو حسرت اور امید شکایت آنسو
اک ترا ذکر تھا اور بیچ میں کیا کیا نکلا
-
موضوعات : آرزواور 3 مزید
ہمارے عشق میں رسوا ہوئے تم
مگر ہم تو تماشا ہو گئے ہیں
ان کا غم ان کا تصور ان کے شکوے اب کہاں
اب تو یہ باتیں بھی اے دل ہو گئیں آئی گئی
-
موضوعات : اداسیاور 5 مزید
سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی
دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے
کس منہ سے کریں ان کے تغافل کی شکایت
خود ہم کو محبت کا سبق یاد نہیں ہے
سر محشر یہی پوچھوں گا خدا سے پہلے
تو نے روکا بھی تھا بندے کو خطا سے پہلے
-
موضوعات : خدااور 1 مزید
ہم کو آپس میں محبت نہیں کرنے دیتے
اک یہی عیب ہے اس شہر کے داناؤں میں
-
موضوعات : سماجی ہم آہنگیاور 1 مزید
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
what divinity was it that Nimrod once proclaimed?
Worship was no use to me, it did not compensate
-
موضوعات : بندگیاور 1 مزید
سنے گا کون میری چاک دامانی کا افسانہ
یہاں سب اپنے اپنے پیرہن کی بات کرتے ہیں
آج اس سے میں نے شکوہ کیا تھا شرارتاً
کس کو خبر تھی اتنا برا مان جائے گا
میری ہی جان کے دشمن ہیں نصیحت والے
مجھ کو سمجھاتے ہیں ان کو نہیں سمجھاتے ہیں
-
موضوع : مشورہ
ہاں انہیں لوگوں سے دنیا میں شکایت ہے ہمیں
ہاں وہی لوگ جو اکثر ہمیں یاد آئے ہیں
-
موضوع : یاد
وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تیری نگہ لطف نے برباد کیا
دیکھنے والا کوئی ملے تو دل کے داغ دکھاؤں
یہ نگری اندھوں کی نگری کس کو کیا سمجھاؤں
روشنی مجھ سے گریزاں ہے تو شکوہ بھی نہیں
میرے غم خانے میں کچھ ایسا اندھیرا بھی نہیں
صاف انکار اگر ہو تو تسلی ہو جائے
جھوٹے وعدوں سے ترے رنج سوا ہوتا ہے
پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
آگے مرے نہ غیر سے گو تم نے بات کی
سرکار کی نظر کو تو پہچانتا ہوں میں
though in my presence you did not converse with my foe
dearest, the aspect of your eye, I certainly do know
فلک سے مجھ کو شکوہ ہے زمیں سے مجھ کو شکوہ ہے
یقیں مانو تو خود اپنے یقیں سے مجھ کو شکوہ ہے