Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خواب پر اشعار

خواب صرف وہی نہیں ہے

جس سے ہم نیند کی حالت میں گزرتے ہیں بلکہ جاگتے ہوئے بھی ہم زندگی کا بڑا حصہ رنگ برنگے خوابوں میں گزارتے ہیں اور ان خوابوں کی تعبیروں کے پیچھے سر گرداں رہتے ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب ایسے ہی شعروں پر مشتمل ہے جو خواب اور تعبیر کی کشمکش میں پھنسے انسان کی روداد سناتے ہیں ۔ یہ شاعری پڑھئے ۔ اس میں آپ کو اپنے خوابوں کے نقوش بھی جھلملاتے ہوئے نظر آئیں گے ۔

خفا دیکھا ہے اس کو خواب میں دل سخت مضطر ہے

کھلا دے دیکھیے کیا کیا گل تعبیر خواب اپنا

نظیر اکبرآبادی

دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئے

خوابوں کی شال اوڑھ کے میں اونگھتا رہا

عادل منصوری

یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے

نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

راحت اندوری

اور تو کیا تھا بیچنے کے لئے

اپنی آنکھوں کے خواب بیچے ہیں

جون ایلیا

ہاتھ لگاتے ہی مٹی کا ڈھیر ہوئے

کیسے کیسے رنگ بھرے تھے خوابوں میں

خاور اعجاز

پر کتر پائی جب نہ خوابوں کے

بند ہی کر دیں کھڑکیاں میں نے

امیتا پرسو رام میتا

بن دیکھے اس کے جاوے رنج و عذاب کیوں کر

وہ خواب میں تو آوے پر آوے خواب کیوں کر

جرأت قلندر بخش

آواز دے رہا تھا کوئی مجھ کو خواب میں

لیکن خبر نہیں کہ بلایا کہاں گیا

فیصل عجمی

پھر نئی ہجرت کوئی درپیش ہے

خواب میں گھر دیکھنا اچھا نہیں

عبد اللہ جاوید

بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں

اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں

افتخار عارف

آنکھیں کھولو خواب سمیٹو جاگو بھی

علویؔ پیارے دیکھو سالا دن نکلا

محمد علوی

ہے بہت کچھ مری تعبیر کی دنیا تجھ میں

پھر بھی کچھ ہے کہ جو خوابوں کے جہاں سے کم ہے

عرفان صدیقی

خواب میں نام ترا لے کے پکار اٹھتا ہوں

بے خودی میں بھی مجھے یاد تری یاد کی ہے

لالہ مادھو رام جوہر

میرے خوابوں میں بھی تو میرے خیالوں میں بھی تو

کون سی چیز تجھے تجھ سے جدا پیش کروں

ساحر لدھیانوی

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو

باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو

احمد فراز

بھری رہے ابھی آنکھوں میں اس کے نام کی نیند

وہ خواب ہے تو یونہی دیکھنے سے گزرے گا

ظفر اقبال

تو جس کے خواب میں آیا ہو وقت صبح صنم

نماز صبح کو کس طرح وہ قضا نہ کرے

مصحفی غلام ہمدانی

سنا ہے خواب مکمل کبھی نہیں ہوتے

سنا ہے عشق خطا ہے سو کر کے دیکھتے ہیں

حمیرا راحتؔ

خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں

کاش تجھ کو بھی اک جھلک دیکھوں

عبید اللہ علیم

بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو

اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو

غلام محمد قاصر

یا رب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو

یہ محشر خیال کہ دنیا کہیں جسے

مرزا غالب

بہتی ہوئی آنکھوں کی روانی میں مرے ہیں

کچھ خواب مرے عین جوانی میں مرے ہیں

اعجاز توکل

اپنے جینے کے ہم اسباب دکھاتے ہیں تمہیں

دوستو آؤ کہ کچھ خواب دکھاتے ہیں تمہیں

سلیم صدیقی

خوابوں کے افق پر ترا چہرہ ہو ہمیشہ

اور میں اسی چہرے سے نئے خواب سجاؤں

اطہر نفیس

ابھی وہ آنکھ بھی سوئی نہیں ہے

ابھی وہ خواب بھی جاگا ہوا ہے

نصیر احمد ناصر

اے شب خواب یہ ہنگام تحیر کیا ہے

خود کو گر نیند سے بیدار کیا ہے میں نے

افضل گوہر راؤ

یہ جب ہے کہ اک خواب سے رشتہ ہے ہمارا

دن ڈھلتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے ہمارا

شہریار

ٹوٹتی رہتی ہے کچے دھاگے سی نیند

آنکھوں کو ٹھنڈک خوابوں کو گرانی دے

زیب غوری

جی لگا رکھا ہے یوں تعبیر کے اوہام سے

زندگی کیا ہے میاں بس ایک گھر خوابوں کا ہے

عین تابش

زیارت ہوگی کعبہ کی یہی تعبیر ہے اس کی

کئی شب سے ہمارے خواب میں بت خانہ آتا ہے

حیدر علی آتش

خواب ویسے تو اک عنایت ہے

آنکھ کھل جائے تو مصیبت ہے

شارق کیفی

مدت سے خواب میں بھی نہیں نیند کا خیال

حیرت میں ہوں یہ کس کا مجھے انتظار ہے

شیخ ظہور الدین حاتم

طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں

مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں

عباس رضوی

کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے

مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی

جاوید اختر

خدا کرے کہ کھلے ایک دن زمانے پر

مری کہانی میں جو استعارہ خواب کا ہے

خورشید ربانی

کچل کے پھینک دو آنکھوں میں خواب جتنے ہیں

اسی سبب سے ہیں ہم پر عذاب جتنے ہیں

جاں نثار اختر

وہی ہے خواب جسے مل کے سب نے دیکھا تھا

اب اپنے اپنے قبیلوں میں بٹ کے دیکھتے ہیں

افتخار عارف

میں اپنی انگشت کاٹتا تھا کہ بیچ میں نیند آ نہ جائے

اگرچہ سب خواب کا سفر تھا مگر حقیقت میں آ بسا ہوں

عزم بہزاد

تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں

سزائیں بھیج دو ہم نے خطائیں بھیجی ہیں

گلزار

اک خواب ہی تو تھا جو فراموش ہو گیا

اک یاد ہی تو تھی جو بھلا دی گئی تو کیا

افتخار عارف

راتوں کو جاگتے ہیں اسی واسطے کہ خواب

دیکھے گا بند آنکھیں تو پھر لوٹ جائے گا

احمد شہریار

خواب کا رشتہ حقیقت سے نہ جوڑا جائے

آئینہ ہے اسے پتھر سے نہ توڑا جائے

ملک زادہ منظور احمد

ٹوٹ کر روح میں شیشوں کی طرح چبھتے ہیں

پھر بھی ہر آدمی خوابوں کا تمنائی ہے

ہوش جونپوری

خوابوں سے نہ جاؤ کہ ابھی رات بہت ہے

پہلو میں تم آؤ کہ ابھی رات بہت ہے

صابر دت

حل کر لیا مجاز حقیقت کے راز کو

پائی ہے میں نے خواب کی تعبیر خواب میں

اصغر گونڈوی

التفات یار تھا اک خواب آغاز وفا

سچ ہوا کرتی ہیں ان خوابوں کی تعبیریں کہیں

حسرتؔ موہانی

کسی خیال کا کوئی وجود ہو شاید

بدل رہا ہوں میں خوابوں کو تجربہ کر کے

خالد ملک ساحل

اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا

زندگی کاہے کو ہے خواب ہے دیوانے کا

فانی بدایونی

دل کبھی خواب کے پیچھے کبھی دنیا کی طرف

ایک نے اجر دیا ایک نے اجرت نہیں دی

افتخار عارف

عشق اس کا آن کر یک بارگی سب لے گیا

جان سے آرام سر سے ہوش اور چشموں سے خواب

شیخ ظہور الدین حاتم

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے