Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Masood Tanha's Photo'

مسعود تنہا

1978 | لاہور, پاکستان

مسعود تنہا کے اشعار

310
Favorite

باعتبار

یادوں کے قافلے میں اداسی تھی ہم رکاب

ہجرت میں تیرے شہر سے تنہاؔ نہیں گئے

شہر میں رونقیں سہی تنہاؔ

اپنے گاؤں سے مت کنارا کر

دشت غربت میں ہم سفر نہ بنا

ہم کئی مہربان چھوڑ آئے

دوست ہی خوبیاں بتاتے ہیں

دوست ہی خامیاں نکالتے ہیں

آج آؤ اس طرح جیسے کہ پہلی بار تم

آ گئے تھے بے خیالی میں سنور کے سامنے

کوئی تازہ لگاؤ زخم دل پر

پرانی یہ نشانی ہو رہی ہے

ہنسے والوں کو جو اک پل میں رلا سکتے ہیں

ایسے لمحات بھی تو زیست میں آ سکتے ہیں

جہاں بھی دیکھا انہیں دوستو سلام کیا

ہمیشہ ہم نے حسینوں کا احترام کیا

میں جب بھی لڑا حق کے لیے اپنے عدو سے

میداں میں رہی کوئی نہ تلوار سلامت

گناہوں نے مجھے جکڑا ہوا ہے اس طرح تنہاؔ

کہ لحظہ بھر عبادت بھی سزا معلوم ہوتی ہے

بہت خاموش رہتا ہے جو تنہاؔ

وہ محفل میں برابر بولتا ہے

سلوک رکھتا ہے مجھ سے منافقوں جیسا

تمام شہر میں جو معتبر زیادہ ہے

امیر شہر کی تھوڑی سی کجروی کے سبب

غریب شہر نے دیکھے ہیں المیے کتنے

قافلے رہ میں لوٹنے والا

راہزن ایک رہنما نکلا

اس بار اکھڑ جائیں گے ایوان سیاست

دربان رہیں گے نہ یہ دربار رہے گا

یہ تماشا سر بازار نہیں ہو سکتا

ہر کوئی میرا خریدار نہیں ہو سکتا

میں جانتا ہوں زمانے کی بے نیازی کو

مجھے پتا ہے سفر میں کہاں ٹھہرنا ہے

جس کو راحت ہے تیری یادوں سے

تیری فرقت میں اشک بار بھی ہے

وہ سخی ہے تو اس کی چوکھٹ پر

دلبری کا سوال کر دیکھیں

بارہا ہم نے اسے رو کے کہا ہے صاحب

دن جدائی کے نہیں ہم سے گزارے جاتے

بہانے ترک تعلق کے کس نے ڈھونڈے تھے

یہ سارے حلقۂ یاراں میں فیصلے ہوں گے

چپ جو رہتے ہیں تو یہ بات غنیمت جانو

ورنہ ہم لوگ بھی اک حشر اٹھا سکتے ہیں

جنگل میں جو سناٹا تھا

شہر کی جانب آ نکلا ہے

کم ملنے کا احساس گراں لگتا ہے تیرا

اب لطف و کرم بھی ترا پہلے سا نہیں ہے

بچ کے نکلا تھا جو کبھی مجھ سے

آ گیا ہے مرے نشانے پر

چھپا کر درد کو سینے میں تنہاؔ

بھرم اس کا بھی کچھ رکھنا پڑے گا

جانے کیا کیا اور ہوں راہ طلب میں مشکلیں

ساتھ رکھنا ہے کبھی زاد سفر مت بھولنا

زخم دیتا ہے ہر کوئی تنہاؔ

حوصلہ بھی دیا کرے کوئی

بھنور نے آ لیا ہے کشتیوں کو

نظارے دیکھ لو تم بھی اجل کے

بزم یاراں میں بیٹھتا ہوں مگر

میری جانب حریف دیکھتے ہیں

حادثے پھر نہ پیش آتے ہمیں

یہ محافظ جو کرتے گھات پہ غور

مسیحائی کا ہو اعجاز جس میں

کہیں وہ چارہ گر ملتا نہیں ہے

مار ڈالے گی ایک دن تنہاؔ

یہ تری شوخیٔ جمال مجھے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے