Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Masood Tanha's Photo'

مسعود تنہا

1978 | لاہور, پاکستان

مسعود تنہا کے اشعار

382
Favorite

باعتبار

چپ جو رہتے ہیں تو یہ بات غنیمت جانو

ورنہ ہم لوگ بھی اک حشر اٹھا سکتے ہیں

جانے کیا کیا اور ہوں راہ طلب میں مشکلیں

ساتھ رکھنا ہے کبھی زاد سفر مت بھولنا

زخم دیتا ہے ہر کوئی تنہاؔ

حوصلہ بھی دیا کرے کوئی

دوست ہی خوبیاں بتاتے ہیں

دوست ہی خامیاں نکالتے ہیں

آج آؤ اس طرح جیسے کہ پہلی بار تم

آ گئے تھے بے خیالی میں سنور کے سامنے

بہانے ترک تعلق کے کس نے ڈھونڈے تھے

یہ سارے حلقۂ یاراں میں فیصلے ہوں گے

میں جب بھی لڑا حق کے لیے اپنے عدو سے

میداں میں رہی کوئی نہ تلوار سلامت

بارہا ہم نے اسے رو کے کہا ہے صاحب

دن جدائی کے نہیں ہم سے گزارے جاتے

قافلے رہ میں لوٹنے والا

راہزن ایک رہنما نکلا

امیر شہر کی تھوڑی سی کجروی کے سبب

غریب شہر نے دیکھے ہیں المیے کتنے

ہنسے والوں کو جو اک پل میں رلا سکتے ہیں

ایسے لمحات بھی تو زیست میں آ سکتے ہیں

یادوں کے قافلے میں اداسی تھی ہم رکاب

ہجرت میں تیرے شہر سے تنہاؔ نہیں گئے

کوئی تازہ لگاؤ زخم دل پر

پرانی یہ نشانی ہو رہی ہے

مار ڈالے گی ایک دن تنہاؔ

یہ تری شوخیٔ جمال مجھے

جہاں بھی دیکھا انہیں دوستو سلام کیا

ہمیشہ ہم نے حسینوں کا احترام کیا

شہر میں رونقیں سہی تنہاؔ

اپنے گاؤں سے مت کنارا کر

بچ کے نکلا تھا جو کبھی مجھ سے

آ گیا ہے مرے نشانے پر

چھپا کر درد کو سینے میں تنہاؔ

بھرم اس کا بھی کچھ رکھنا پڑے گا

جنگل میں جو سناٹا تھا

شہر کی جانب آ نکلا ہے

کم ملنے کا احساس گراں لگتا ہے تیرا

اب لطف و کرم بھی ترا پہلے سا نہیں ہے

گناہوں نے مجھے جکڑا ہوا ہے اس طرح تنہاؔ

کہ لحظہ بھر عبادت بھی سزا معلوم ہوتی ہے

بھنور نے آ لیا ہے کشتیوں کو

نظارے دیکھ لو تم بھی اجل کے

بزم یاراں میں بیٹھتا ہوں مگر

میری جانب حریف دیکھتے ہیں

دشت غربت میں ہم سفر نہ بنا

ہم کئی مہربان چھوڑ آئے

وہ سخی ہے تو اس کی چوکھٹ پر

دلبری کا سوال کر دیکھیں

یہ تماشا سر بازار نہیں ہو سکتا

ہر کوئی میرا خریدار نہیں ہو سکتا

مسیحائی کا ہو اعجاز جس میں

کہیں وہ چارہ گر ملتا نہیں ہے

میں جانتا ہوں زمانے کی بے نیازی کو

مجھے پتا ہے سفر میں کہاں ٹھہرنا ہے

جس کو راحت ہے تیری یادوں سے

تیری فرقت میں اشک بار بھی ہے

حادثے پھر نہ پیش آتے ہمیں

یہ محافظ جو کرتے گھات پہ غور

سلوک رکھتا ہے مجھ سے منافقوں جیسا

تمام شہر میں جو معتبر زیادہ ہے

اس بار اکھڑ جائیں گے ایوان سیاست

دربان رہیں گے نہ یہ دربار رہے گا

بہت خاموش رہتا ہے جو تنہاؔ

وہ محفل میں برابر بولتا ہے

Recitation

بولیے