معید رشیدی کے اشعار
پانی سا جو بھر آیا تھا آنکھوں میں
مٹی کا احسان بھی تو ہو سکتا تھا
اک شہر ہمارے دل میں ہے اک شہر ہماری آنکھوں میں
اک محو تماشا رہتا ہے اک رہتا ہے نادانی میں
ہر قدم راہ میں ملتے ہیں شناسا چہرے
ہر قدم راہ میں ملتی ہے نئی تنہائی
بھربھری سی ہڈیوں میں وقت کا سراغ تھا
اپنی قبر کھودنے کا حوصلہ نہیں ہوا
یہ کیا ضروری کہ سب با وفا پکاریں ہمیں
کوئی تو ہے جو ہمیں بے وفا پکارتا ہے
وفا کا ہر چلن سکھلا دیا تھا
کسی نے بے وفا ہونے سے پہلے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہیں کشتگان صدا آخری کنارے پر
اے خامشی تری ترسیل ہونے والی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پل بھر میں یہاں دھوپ ہے پل بھر میں ہے سایہ
دنیا ہے سمجھنے میں ذرا دیر لگے گی
تو مجھے زہر پلاتی ہے یہ تیرا شیوہ
سر پھری رات تجھے خون پلایا میں نے
اے آسماں تجھے اب بھی شکایتیں ہیں بہت
زمین کہتی ہے سارا حساب ہو گیا ہے
بھیگے بھیگے سناٹوں میں کھویا کھویا سا اک خواب
سہمی سہمی خاموشی میں خوف زدہ سا تنہا تھا
لہو کے پار کوئی منتظر ہے آخر شب
کمال ضبط سے آگے سفر کیا جائے
دل ہو روشن تو چراغوں کی نمائش کیسی
چاند اترے مرے سینے میں تو خواہش کیسی
ختم ہوگی کب یہ وحشت اے خدا کب فیصلہ ہوگا
خاک میں خلق خدا مل جائے گی تب فیصلہ ہوگا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئی آتا ہے یا نہیں آتا
آج خود کو پکار کر دیکھیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عاشقی میں سبھی بے باک ہوئے جاتے ہیں
اب زمانے میں کسے عرض ہنر آتا ہے
نہ راس آئے گی ہم کو ابھی یہ آب و ہوا
جہاں کے ہم ہیں نظر میں وہاں کا موسم ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حادثے نہیں ہوئے کہ تجربہ نہیں ہوا
مختصر سی زندگی میں کیا سے کیا نہیں ہوا
روز لکھتا ہے یہاں وقت زمانے کی کتاب
زندگی اپنی حوالوں کے سوا کچھ بھی نہیں
رقص کرتا رہا دل خوب دھڑکتا رہا دل
ہاں یہی دل جسے بیمار سمجھتے رہے ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ جو بے نشان سے لوگ تھے وہی منزلوں کا نشاں ہوئے
جسے رہ گزر کی خبر ہوئی اسے رہ گزر نے بھلا دیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جب تری خاک میں ہجرت ہے تو اس شہر سے جا
اب ترا نان و نمک نام و نشاں اٹھتا ہے
ہوا کی ضد بھی وہی ہے دیے کی ضد بھی وہی
عجب حکایت شب زادگاں کا موسم ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک نہ اک دن تو چکانا ہے خموشی کا حساب
جانتے سب ہیں مگر بولتا کوئی نہیں ہے
گھر کے اندر کی ویرانی اپنی اپنی سی
گھر سے باہر کی ویرانی ایک سی لگتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بہت حسین تھی دنیا بہت خراب ہے خلق
شکست خواب سے پہلے شکست خواب کے بعد
اب اس سے پہلے کہ رسوائی اپنے گھر آتی
تمہارے شہر سے ہم با ادب نکل آئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا
میں خود کو دیکھتا رہا میں خود کو سوچتا رہا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سانس لینا ہی گنہ ہے تو نہیں کوئی گناہ
دل دھڑکنا ہی سزا ہے تو سزا کچھ بھی نہیں
بدن پر آج خاموشی لپیٹے
چلا آیا صدا ہونے سے پہلے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کسی کے حرف تمنا کی انتہا ہوں میں
کسی کے حرف دعا نے مری حفاظت کی
چپکے چپکے کسی آہٹ کا دیا ہو روشن
دھیرے دھیرے کسی مہمان کی خوشبو جاگے
ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے
خانۂ دل میں نہاں کوئی خدا رہتا ہے
سلگتی دھوپ میں جل کر فقیر شب تری خاک
کیوں خانقاہ شب بے کراں میں بیٹھ گئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس اہتمام سے تجھ کو کبھی پکاروں گا
میں اپنے نام سے تجھ کو کبھی پکاروں گا
دل درد سے خالی نہیں اک لمحہ کسی طور
یہ بات مگر دل کے سوا کون کہے گا
کچھ دیر تو اس عقل کو آرام دیا جائے
اے عشق تجھے آج کوئی کام دیا جائے
جس گھڑی پوچھ رہا تھا وہ مرے دل کا مزاج
اے مری آنکھ تجھے خون سے بھر جانا تھا
بچھڑ گئی تھی وہی شے جو میری تھی ہی نہیں
جو میرے تھے ہی نہیں وہ جدا ہوئے بھی تو کیا
خود کو پکارتا رہا کوئی خبر نہیں ملی
کس کی خبر نہیں ملی کس کو پکارتا رہا
یہ رات کاٹتی رہتی ہے صبح تک مجھ کو
نہ جانے کیسے میں ہر رات کاٹ دیتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اے وحشت صحرا مرے قدموں سے لپٹ جا
اب اس سے زیادہ تو بکھرنے سے رہا میں
اپنی تنہائی کو بازار سمجھتے رہے ہم
زندگی تجھ کو خریدار سمجھتے رہے ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خوف ہے دھند بھری رات ہے تنہائی ہے
میرے کمرے میں ابھی رات ہے تنہائی ہے
رس گھولتے شیریں لفظوں کی تاثیر سے خوشبو آتی ہے
انداز بیاں سے لہجے سے تقریر سے خوشبو آتی ہے
زندگی ہم ترے کوچے میں چلے آئے تو ہیں
تیرے کوچے کی ہوا ہم سے خفا لگتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ