Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Moid Rasheedi's Photo'

معید رشیدی

1988 | علی گڑہ, انڈیا

ممتاز نسل کے نمود پذیر شاعر اور نقاد۔ ساہتیہ اکادمی ’یوا پرسکار‘ یافتہ

ممتاز نسل کے نمود پذیر شاعر اور نقاد۔ ساہتیہ اکادمی ’یوا پرسکار‘ یافتہ

معید رشیدی کے اشعار

3.4K
Favorite

باعتبار

پانی سا جو بھر آیا تھا آنکھوں میں

مٹی کا احسان بھی تو ہو سکتا تھا

اک شہر ہمارے دل میں ہے اک شہر ہماری آنکھوں میں

اک محو تماشا رہتا ہے اک رہتا ہے نادانی میں

ہر قدم راہ میں ملتے ہیں شناسا چہرے

ہر قدم راہ میں ملتی ہے نئی تنہائی

بھربھری سی ہڈیوں میں وقت کا سراغ تھا

اپنی قبر کھودنے کا حوصلہ نہیں ہوا

یہ کیا ضروری کہ سب با وفا پکاریں ہمیں

کوئی تو ہے جو ہمیں بے وفا پکارتا ہے

وفا کا ہر چلن سکھلا دیا تھا

کسی نے بے وفا ہونے سے پہلے

ہیں کشتگان صدا آخری کنارے پر

اے خامشی تری ترسیل ہونے والی ہے

پل بھر میں یہاں دھوپ ہے پل بھر میں ہے سایہ

دنیا ہے سمجھنے میں ذرا دیر لگے گی

تو مجھے زہر پلاتی ہے یہ تیرا شیوہ

سر پھری رات تجھے خون پلایا میں نے

اے آسماں تجھے اب بھی شکایتیں ہیں بہت

زمین کہتی ہے سارا حساب ہو گیا ہے

بھیگے بھیگے سناٹوں میں کھویا کھویا سا اک خواب

سہمی سہمی خاموشی میں خوف زدہ سا تنہا تھا

میری لہریں خلاف ہیں مجھ سے

آج مشکل ہے ناخدا ہونا

ہم دوانوں کی ذرا قدر کرو

ہم سے موسوم رہی ہے دنیا

لہو کے پار کوئی منتظر ہے آخر شب

کمال ضبط سے آگے سفر کیا جائے

دل ہو روشن تو چراغوں کی نمائش کیسی

چاند اترے مرے سینے میں تو خواہش کیسی

ختم ہوگی کب یہ وحشت اے خدا کب فیصلہ ہوگا

خاک میں خلق خدا مل جائے گی تب فیصلہ ہوگا

کوئی آتا ہے یا نہیں آتا

آج خود کو پکار کر دیکھیں

عاشقی میں سبھی بے باک ہوئے جاتے ہیں

اب زمانے میں کسے عرض ہنر آتا ہے

نہ راس آئے گی ہم کو ابھی یہ آب و ہوا

جہاں کے ہم ہیں نظر میں وہاں کا موسم ہے

حادثے نہیں ہوئے کہ تجربہ نہیں ہوا

مختصر سی زندگی میں کیا سے کیا نہیں ہوا

روز لکھتا ہے یہاں وقت زمانے کی کتاب

زندگی اپنی حوالوں کے سوا کچھ بھی نہیں

رقص کرتا رہا دل خوب دھڑکتا رہا دل

ہاں یہی دل جسے بیمار سمجھتے رہے ہم

وہ جو بے نشان سے لوگ تھے وہی منزلوں کا نشاں ہوئے

جسے رہ گزر کی خبر ہوئی اسے رہ گزر نے بھلا دیا

جب تری خاک میں ہجرت ہے تو اس شہر سے جا

اب ترا نان و نمک نام و نشاں اٹھتا ہے

ہوا کی ضد بھی وہی ہے دیے کی ضد بھی وہی

عجب حکایت شب زادگاں کا موسم ہے

خوب بڑھی ہے آبادی

خوب بڑھا ہے سناٹا

خود کو منزل سمجھنے والے قدم

رہ گزاروں میں ٹوٹ جاتے ہیں

اک نہ اک دن تو چکانا ہے خموشی کا حساب

جانتے سب ہیں مگر بولتا کوئی نہیں ہے

گھر کے اندر کی ویرانی اپنی اپنی سی

گھر سے باہر کی ویرانی ایک سی لگتی ہے

بہت حسین تھی دنیا بہت خراب ہے خلق

شکست خواب سے پہلے شکست خواب کے بعد

اب اس سے پہلے کہ رسوائی اپنے گھر آتی

تمہارے شہر سے ہم با ادب نکل آئے

آنکھوں میں شب اتر گئی خوابوں کا سلسلہ رہا

میں خود کو دیکھتا رہا میں خود کو سوچتا رہا

سانس لینا ہی گنہ ہے تو نہیں کوئی گناہ

دل دھڑکنا ہی سزا ہے تو سزا کچھ بھی نہیں

بدن پر آج خاموشی لپیٹے

چلا آیا صدا ہونے سے پہلے

کسی کے حرف تمنا کی انتہا ہوں میں

کسی کے حرف دعا نے مری حفاظت کی

چپکے چپکے کسی آہٹ کا دیا ہو روشن

دھیرے دھیرے کسی مہمان کی خوشبو جاگے

ایک ہنگامہ شب و روز بپا رہتا ہے

خانۂ دل میں نہاں کوئی خدا رہتا ہے

سلگتی دھوپ میں جل کر فقیر شب تری خاک

کیوں خانقاہ شب بے کراں میں بیٹھ گئی

اس اہتمام سے تجھ کو کبھی پکاروں گا

میں اپنے نام سے تجھ کو کبھی پکاروں گا

دل درد سے خالی نہیں اک لمحہ کسی طور

یہ بات مگر دل کے سوا کون کہے گا

کچھ دیر تو اس عقل کو آرام دیا جائے

اے عشق تجھے آج کوئی کام دیا جائے

جس گھڑی پوچھ رہا تھا وہ مرے دل کا مزاج

اے مری آنکھ تجھے خون سے بھر جانا تھا

بچھڑ گئی تھی وہی شے جو میری تھی ہی نہیں

جو میرے تھے ہی نہیں وہ جدا ہوئے بھی تو کیا

خود کو پکارتا رہا کوئی خبر نہیں ملی

کس کی خبر نہیں ملی کس کو پکارتا رہا

یہ رات کاٹتی رہتی ہے صبح تک مجھ کو

نہ جانے کیسے میں ہر رات کاٹ دیتا ہوں

اے وحشت صحرا مرے قدموں سے لپٹ جا

اب اس سے زیادہ تو بکھرنے سے رہا میں

اپنی تنہائی کو بازار سمجھتے رہے ہم

زندگی تجھ کو خریدار سمجھتے رہے ہم

خوف ہے دھند بھری رات ہے تنہائی ہے

میرے کمرے میں ابھی رات ہے تنہائی ہے

رس گھولتے شیریں لفظوں کی تاثیر سے خوشبو آتی ہے

انداز بیاں سے لہجے سے تقریر سے خوشبو آتی ہے

زندگی ہم ترے کوچے میں چلے آئے تو ہیں

تیرے کوچے کی ہوا ہم سے خفا لگتی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے