Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Qamar Jalalvi's Photo'

قمر جلالوی

1887 - 1968 | کراچی, پاکستان

پاکستان کے استاد شاعر، کئی مقبول عام شعروں کے خالق

پاکستان کے استاد شاعر، کئی مقبول عام شعروں کے خالق

قمر جلالوی کے اشعار

14.1K
Favorite

باعتبار

ذرا روٹھ جانے پہ اتنی خوشامد

قمرؔ تم بگاڑو گے عادت کسی کی

شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ

اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

ضبط کرتا ہوں تو گھٹتا ہے قفس میں مرا دم

آہ کرتا ہوں تو صیاد خفا ہوتا ہے

سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے

کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو

آئیں ہیں وہ مزار پہ گھونگھٹ اتار کے

مجھ سے نصیب اچھے ہے میرے مزار کے

دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام

ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر تم اپنی محبت واپس لو

جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو بوجھ اتارا کرتے ہیں

کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو

نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو

پوچھو نہ عرق رخساروں سے رنگینئ حسن کو بڑھنے دو

سنتے ہیں کہ شبنم کے قطرے پھولوں کو نکھارا کرتے ہیں

وہ چار چاند فلک کو لگا چلا ہوں قمرؔ

کہ میرے بعد ستارے کہیں گے افسانے

رسوا کرے گی دیکھ کے دنیا مجھے قمرؔ

اس چاندنی میں ان کو بلانے کو جائے کون

شام کو آؤ گے تم اچھا ابھی ہوتی ہے شام

گیسوؤں کو کھول دو سورج چھپانے کے لئے

روئیں گے دیکھ کر سب بستر کی ہر شکن کو

وہ حال لکھ چلا ہوں کروٹ بدل بدل کر

سرمے کا تل بنا کے رخ لا جواب میں

نقطہ بڑھا رہے ہو خدا کی کتاب میں

قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوف رسوائی

چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو

اب آگے اس میں تمہارا بھی نام آئے گا

جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو

اس لئے آرزو چھپائی ہے

منہ سے نکلی ہوئی پرائی ہے

شب کو مرا جنازہ جائے گا یوں نکل کر

رہ جائیں گے سحر کو دشمن بھی ہاتھ مل کر

جاتی ہوئی میت دیکھ کے بھی واللہ تم اٹھ کر آ نہ سکے

دو چار قدم تو دشمن بھی تکلیف گوارا کرتے ہیں

ابھی باقی ہیں پتوں پر جلے تنکوں کی تحریریں

یہ وہ تاریخ ہے بجلی گری تھی جب گلستاں پر

تم میں جو بات ہے وہ بات نہیں آئی ہے

کیا یہ تصویر کسی اور سے کھنچوائی ہے

قمرؔ کسی سے بھی دل کا علاج ہو نہ سکا

ہم اپنا داغ دکھاتے رہے زمانے کو

مجھے میرے مٹنے کا غم ہے تو یہ ہے

تمہیں بے وفا کہہ رہا ہے زمانہ

تیرے قربان قمرؔ منہ سر گلزار نہ کھول

صدقے اس چاند سی صورت پہ نہ ہو جائے بہار

مدتیں ہوئیں اب تو جل کے آشیاں اپنا

آج تک یہ عالم ہے روشنی سے ڈرتا ہوں

نزع کی اور بھی تکلیف بڑھا دی تم نے

کچھ نہ بن آیا تو آواز سنا دی تم نے

میں ان سب میں اک امتیازی نشاں ہوں فلک پر نمایاں ہیں جتنے ستارے

قمرؔ بزم انجم کی مجھ کو میسر صدارت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

جلوہ گر بزم حسیناں میں ہیں وہ اس شان سے

چاند جیسے اے قمرؔ تاروں بھری محفل میں ہے

بڑھا بڑھا کے جفائیں جھکا ہی دو گے کمر

گھٹا گھٹا کے قمرؔ کو ہلال کر دو گے

روشن ہے میرا نام بڑا نامور ہوں میں

شاہد ہیں آسماں کے ستارے قمر ہوں میں

نشیمن خاک ہونے سے وہ صدمہ دل کو پہنچا ہے

کہ اب ہم سے کوئی بھی روشنی دیکھی نہیں جاتی

اگر آ جائے پہلو میں قمرؔ وہ ماہ کامل بھی

دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہوگی

یہی ہے گر خوشی تو رات بھر گنتے رہو تارے

قمرؔ اس چاندنی میں ان کا اب آنا تو کیا ہوگا

جگر کا داغ چھپاؤ قمرؔ خدا کے لئے

ستارے ٹوٹتے ہیں ان کے دیدۂ نم سے

ایسے میں وہ ہوں باغ ہو ساقی ہو اے قمرؔ

لگ جائیں چار چاند شب ماہتاب میں

قمرؔ افشاں چنی ہے رخ پہ اس نے اس سلیقہ سے

ستارے آسماں سے دیکھنے کو آئے جاتے ہیں

نہ ہو رہائی قفس سے اگر نہیں ہوتی

نگاہ شوق تو بے بال و پر نہیں ہوتی

ہر وقت محویت ہے یہی سوچتا ہوں میں

کیوں برق نے جلایا مرا آشیاں نہ پوچھ

قمرؔ اپنے داغ دل کی وہ کہانی میں نے چھیڑی

کہ سنا کئے ستارے مرا رات بھر فسانہ

خون ہوتا ہے سحر تک مرے ارمانوں کا

شام وعدہ جو وہ پابند حنا ہوتا ہے

تم تو صرف اک دید کی حسرت پہ برہم ہو گئے

کم سے کم پوری تو سنتے داستان آرزو

دن میں بھٹک رہے ہیں جو منزل کی راہ سے

یہ لوگ کیا کریں گے اگر رات ہو گئی

روز محفل سے اٹھاتے ہو تو دل دکھتا ہے

اب نکلواؤ تو پھر حضرت آدم کی طرح

Recitation

بولیے