Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Syed Yusuf Ali Khan Nazim's Photo'

سید یوسف علی خاں ناظم

1816 - 1865 | رام پور, انڈیا

سید یوسف علی خاں ناظم کے اشعار

1.7K
Favorite

باعتبار

نہ بذلہ سنج نہ شاعر نہ شوخ طبع رقیب

دیا ہے آپ نے خلوت میں اپنی بار کسے

عید کے دن جائیے کیوں عید گاہ

جب کہ در مے کدہ وا ہو گیا

جب ترا نام سنا تو نظر آیا گویا

کس سے کہئے کہ تجھے کان سے ہم دیکھتے ہیں

جاتی نہیں ہے سعی رہ عاشقی میں پیش

جو تھک کے رہ گیا وہی ثابت قدم ہوا

اس بت کا کوچہ مسجد جامع نہیں ہے شیخ

اٹھئے اور اپنا یاں سے مصلیٰ اٹھائیے

گھر کی ویرانی کو کیا روؤں کہ یہ پہلے سی

تنگ اتنا ہے کہ گنجائش تعمیر نہیں

کہتے ہیں چھپ کے رات کو پیتا ہے روز مے

واعظ سے راہ کیجیے پیدا کسی طرح

بھلا کیا طعنہ دوں زہاد کو زہد ریائی کا

پڑھی ہے میں نے مسجد میں نماز بے وضو برسوں

عید ہے ہم نے بھی جانا کہ نہ ہوتی گر عید

مے فروش آج در مے کدہ کیوں وا کرتا

ہے عید میکدے کو چلو دیکھتا ہے کون

شہد و شکر پہ ٹوٹ پڑے روزہ دار آج

سنبھال واعظ زبان اپنی خدا سے ڈرا اک ذرا حیا کر

بتوں کی غیبت خدا کے گھر میں خدا خدا کر خدا خدا کر

حق یہ ہے کہ کعبے کی بنا بھی نہ پڑی تھی

ہیں جب سے در بت کدہ پر خاک نشیں ہم

چاہوں کہ حال وحشت دل کچھ رقم کروں

بھاگیں حروف وقت نگارش قلم سے دور

محتاج نہیں قافلہ آواز درا کا

سیدھی ہے رہ بت کدہ احسان خدا کا

مٹھی میں کیا دھری تھی کہ چپکے سے سونپ دی

جان عزیز پیشکش نامہ بر غلط

لڑ تو آیا اس سے لیکن ہم نشیں

دل میں کہتا ہوں کہ ناظمؔ کیا کیا

بوسۂ عارض مجھے دیتے ہوئے ڈرتا ہے کیوں

لوں گا کیا نوک زباں سے تیرے رخ کا تل اٹھا

شبستاں میں رہو باغوں میں کھیلو مجھ سے کیوں پوچھو

کہ راتیں کس طرح کٹتی ہیں دن کیسے گزرتے ہیں

خریداری ہے شہد و شیر و قصر و حور و غلماں کی

غم دیں بھی اگر سمجھو تو اک دھندا ہے دنیا کا

واعظ و شیخ سبھی خوب ہیں کیا بتلاؤں

میں نے میخانے سے کس کس کو نکلتے دیکھا

جب گزرتی ہے شب ہجر میں جی اٹھتا ہوں

عہدہ خورشید نے پایا ہے مسیحائی کا

ایک ہے جب مرجع اسلام و کفر

فرق کیسا سبحہ و زنار کا

یہ کس زہرہ جبیں کی انجمن میں آمد آمد ہے

بچھایا ہے قمر نے چاندنی کا فرش محفل میں

پھونک دو یاں گر خس و خاشاک ہیں

دور کیوں پھینکو ہمیں گلزار سے

چلے ہو دشت کو ناظمؔ اگر ملے مجنوں

ذرا ہماری طرف سے بھی پیار کر لینا

کفر و ایماں سے ہے کیا بحث اک تمنا چاہئے

ہاتھ میں تسبیح ہو یا دوش پر زنار ہو

ساحل پر آ کے لگتی ہے ٹکر سفینے کو

ہجراں سے وصل میں ہے سوا دل کی احتیاط

کہتے ہو سب کہ تجھ سے خفا ہو گیا ہے یار

یہ بھی کوئی بتاؤ کہ کس بات پر ہوا

رونے نے مرے سیکڑوں گھر ڈھا دیے لیکن

کیا راہ ترے کوچے کی ہموار نکالی

بند محرم کے وہ کھلواتے ہیں ہم سے بیشتر

آج کل سونے کی چڑیا ہے ہمارے ہاتھ میں

کیا کھائیں ہم وفا میں اب ایمان کی قسم

جب تار سبحہ رشتۂ زنار ہو چکا

ہے دور فلک ضعف میں پیش نظر اپنے

کس وقت ہم اٹھتے ہیں کہ چکر نہیں آتا

کم سمجھتے نہیں ہم خلد سے میخانے کو

دیدۂ حور کہا چاہئے پیمانے کو

وہی معبود ہے ناظمؔ جو ہے محبوب اپنا

کام کچھ ہم کو نہ مسجد سے نہ بت خانے سے

ہے رشتہ ایک پھر یہ کشاکش نہ چاہئے

اچھا نہیں ہے سبحہ کا زنار سے بگاڑ

برسوں ڈھونڈا کئے ہم دیر و حرم میں لیکن

کہیں پایا نہ پتا اس بت ہرجائی کا

پرسش کو اگر ہونٹ تمہارے نہیں ہلتے

کیا قتل کو بھی ہاتھ تمہارا نہیں اٹھتا

کیا میرے کام سے ہے روائی کو دشمنی

کشتی مری کھلی تھی کہ دریا ٹھہر گیا

ناظمؔ یہ انتظام رعایت ہے نام کی

میں مبتلا نہیں ہوس ملک و مال کا

ہے جلوہ فروشی کی دکاں جو یہ اب اسی نے

دیوار میں کھڑکی سر بازار نکالی

شاعر بنے ندیم بنے قصہ خواں بنے

پائی نہ ان کے دل میں مگر جا کسی طرح

آ گیا دھیان میں مضموں تری یکتائی کا

آج مطلع ہوا مصرع مری تنہائی کا

افسانۂ مجنوں سے نہیں کم مرا قصہ

اس بات کو جانے دو کہ مشہور نہیں ہے

بے دیے لے اڑا کبوتر خط

یوں پہنچتا ہے اوپر اوپر خط

روزہ رکھتا ہوں صبوحی پی کے ہنگام سحر

شام کو مسجد میں ہوتا ہوں جماعت کا شریک

جنبش ابرو کو ہے لیکن نہیں عاشق پہ نگاہ

تم کماں کیوں لیے پھرتے ہو اگر تیر نہیں

بوس و کنار کے لئے یہ سب فریب ہیں

اظہار پاک بازی و ذوق نظر غلط

Recitation

بولیے