Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Wahshat Raza Ali Kalkatvi's Photo'

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

1881 - 1956 | کولکاتا, انڈیا

بنگال کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر

بنگال کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر

وحشتؔ رضا علی کلکتوی کے اشعار

5.1K
Favorite

باعتبار

مزہ آتا اگر گزری ہوئی باتوں کا افسانہ

کہیں سے تم بیاں کرتے کہیں سے ہم بیاں کرتے

ظالم کی تو عادت ہے ستاتا ہی رہے گا

اپنی بھی طبیعت ہے بہلتی ہی رہے گی

زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا

ہماری بیکسی کو دیکھ کر سارا جہاں رویا

کٹھن ہے کام تو ہمت سے کام لے اے دل

بگاڑ کام نہ مشکل سمجھ کے مشکل کو

اور عشرت کی تمنا کیا کریں

سامنے تو ہو تجھے دیکھا کریں

نشان منزل جاناں ملے ملے نہ ملے

مزے کی چیز ہے یہ ذوق جستجو میرا

مرے تو دل میں وہی شوق ہے جو پہلے تھا

کچھ آپ ہی کی طبیعت بدل گئی ہوگی

گردن جھکی ہوئی ہے اٹھاتے نہیں ہیں سر

ڈر ہے انہیں نگاہ لڑے گی نگاہ سے

کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف

ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے

جو گرفتار تمہارا ہے وہی ہے آزاد

جس کو آزاد کرو تم کبھی آزاد نہ ہو

میرا مقصد کہ وہ خوش ہوں مری خاموشی سے

ان کو اندیشہ کہ یہ بھی کوئی فریاد نہ ہو

مجال ترک محبت نہ ایک بار ہوئی

خیال ترک محبت تو بار بار کیا

دونوں نے کیا ہے مجھ کو رسوا

کچھ درد نے اور کچھ دوا نے

عزیز اگر نہیں رکھتا نہ رکھ ذلیل ہی رکھ

مگر نکال نہ تو اپنی انجمن سے مجھے

محنت ہو مصیبت ہو ستم ہو تو مزا ہے

ملنا ترا آساں ہے طلب گار بہت ہیں

دل توڑ دیا تم نے میرا اب جوڑ چکے تم ٹوٹے کو

وہ کام نہایت آساں تھا یہ کام بلا کا مشکل ہے

ہم نے عالم سے بے وفائی کی

ایک معشوق بے وفا کے لیے

آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے

یہ میسر ہو تو پھر کیوں کوئی ناشاد رہے

سینے میں مرے داغ غم عشق نبی ہے

اک گوہر نایاب مرے ہاتھ لگا ہے

کس طرح حسن زباں کی ہو ترقی وحشتؔ

میں اگر خدمت اردوئے معلیٰ نہ کروں

تو ہم سے ہے بدگماں صد افسوس

تیرے ہی تو جاں نثار ہیں ہم

اے اہل وفا خاک بنے کام تمہارا

آغاز بتا دیتا ہے انجام تمہارا

خیال تک نہ کیا اہل انجمن نے ذرا

تمام رات جلی شمع انجمن کے لیے

خاک میں کس دن ملاتی ہے مجھے

اس سے ملنے کی تمنا دیکھیے

اس دل نشیں ادا کا مطلب کبھی نہ سمجھے

جب ہم نے کچھ کہا ہے وہ مسکرا دیئے ہیں

نہ وہ پوچھتے ہیں نہ کہتا ہوں میں

رہی جاتی ہے دل کی دل میں ہوس

وحشتؔ اس بت نے تغافل جب کیا اپنا شعار

کام خاموشی سے میں نے بھی لیا فریاد کا

وہ کام میرا نہیں جس کا نیک ہو انجام

وہ راہ میری نہیں جو گئی ہو منزل کو

بے جا ہے تری جفا کا شکوہ

مارا مجھ کو مری وفا نے

تیرا مرنا عشق کا آغاز تھا

موت پر ہوگا مرے انجام عشق

رخ روشن سے یوں اٹھی نقاب آہستہ آہستہ

کہ جیسے ہو طلوع آفتاب آہستہ آہستہ

زندگی اپنی کسی طرح بسر کرنی ہے

کیا کروں آہ اگر تیری تمنا نہ کروں

زبردستی غزل کہنے پہ تم آمادہ ہو وحشتؔ

طبیعت جب نہ ہو حاضر تو پھر مضمون کیا نکلے

تو ہے اور عیش ہے اور انجمن آرائی ہے

میں ہوں اور رنج ہے اور گوشۂ تنہائی ہے

آغاز سے ظاہر ہوتا ہے انجام جو ہونے والا ہے

انداز زمانہ کہتا ہے پوری ہو تمنا مشکل ہے

اس زمانے میں خموشی سے نکلتا نہیں کام

نالہ پر شور ہو اور زوروں پہ فریاد رہے

اے مشعل امید یہ احسان کم نہیں

تاریک شب کو تو نے درخشاں بنا دیا

بڑھ چلی ہے بہت حیا تیری

مجھ کو رسوا نہ کر خدا کے لیے

یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا

گیا زیر زمیں جو کوئی زیر آسماں آیا

دونوں نے بڑھائی رونق حسن

شوخی نے کبھی کبھی حیا نے

قدردانی کی کیفیت معلوم

عیب کیا ہے اگر ہنر نہ ہوا

تمہارا مدعا ہی جب سمجھ میں کچھ نہیں آیا

تو پھر مجھ پر نظر ڈالی یہ تم نے مہرباں کیسی

بزم میں اس بے مروت کی مجھے

دیکھنا پڑتا ہے کیا کیا دیکھیے

نہیں ممکن لب عاشق سے حرف مدعا نکلے

جسے تم نے کیا خاموش اس سے کیا صدا نکلے

ابھی ہوتے اگر دنیا میں داغؔ دہلوی زندہ

تو وہ سب کو بتا دیتے ہے وحشتؔ کی زباں کیسی

سچ کہا ہے کہ بہ امید ہے دنیا قائم

دل حسرت زدہ بھی تیرا تمنائی ہے

وحشتؔ سخن و لطف سخن اور ہی شے ہے

دیوان میں یاروں کے تو اشعار بہت ہیں

بڑھا ہنگامۂ شوق اس قدر بزم حریفاں میں

کہ رخصت ہو گیا اس کا حجاب آہستہ آہستہ

دل کو ہم کب تک بچائے رکھتے ہر آسیب سے

ٹھیس آخر لگ گئی شیشے میں بال آ ہی گیا

ہر چند وحشتؔ اپنی غزل تھی گری ہوئی

محفل سخن کی گونج اٹھی واہ واہ سے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے