حیا پر اشعار
اردو شاعری کا محبوب
بڑی متضاد صفات سے گندھا ہوا ہے ۔ وہ مغرور بھی ہے اور حیا دار بھی ۔ شرماتا ہے توایسا کہ نظر نہیں اٹھاتا ۔ اس کی شرماہٹ کی دلچسپ صورتوں کو شاعروں نے مبالغہ آمیز انداز میں بیان کیا ہے ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے اور لطف اٹھائیے ۔
حیا سے سر جھکا لینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
-
موضوع : ادا
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
ان رس بھری آنکھوں میں حیا کھیل رہی ہے
دو زہر کے پیالوں میں قضا کھیل رہی ہے
عشوہ بھی ہے شوخی بھی تبسم بھی حیا بھی
ظالم میں اور اک بات ہے اس سب کے سوا بھی
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
-
موضوع : جوانی
تنہا وہ آئیں جائیں یہ ہے شان کے خلاف
آنا حیا کے ساتھ ہے جانا ادا کے ساتھ
برق کو ابر کے دامن میں چھپا دیکھا ہے
ہم نے اس شوخ کو مجبور حیا دیکھا ہے
پہلے تو میری یاد سے آئی حیا انہیں
پھر آئنے میں چوم لیا اپنے آپ کو
-
موضوع : آئینہ
شکر پردے ہی میں اس بت کو حیا نے رکھا
ورنہ ایمان گیا ہی تھا خدا نے رکھا
او وصل میں منہ چھپانے والے
یہ بھی کوئی وقت ہے حیا کا
-
موضوع : وصال
کبھی حیا انہیں آئی کبھی غرور آیا
ہمارے کام میں سو سو طرح فتور آیا
غیر کو یا رب وہ کیونکر منع گستاخی کرے
گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے
کیا بتاؤں میں کہ تم نے کس کو سونپی ہے حیا
اس لئے سوچا مری خاموشیاں ہی ٹھیک ہیں
-
موضوع : خاموشی