وسیم بریلوی کے اشعار
چراغ گھر کا ہو محفل کا ہو کہ مندر کا
ہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی
-
موضوع : ہوا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
-
موضوع : استقبال
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سبھی رشتے گلابوں کی طرح خوشبو نہیں دیتے
کچھ ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو کانٹے چھوڑ جاتے ہیں
غم اور ہوتا سن کے گر آتے نہ وہ وسیمؔ
اچھا ہے میرے حال کی ان کو خبر نہیں
دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا
تم کو بھی تو اندازہ لگانا نہیں آتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں نے چاہا ہے تجھے عام سے انساں کی طرح
تو مرا خواب نہیں ہے جو بکھر جائے گا
اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے
تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آج پی لینے دے ساقی مجھے جی لینے دے
کل مری رات خدا جانے کہاں گزرے گی
وسیمؔ ذہن بناتے ہیں تو وہی اخبار
جو لے کے ایک بھی اچھی خبر نہیں آتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں
اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں
آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پھول تو پھول ہیں آنکھوں سے گھرے رہتے ہیں
کانٹے بیکار حفاظت میں لگے رہتے ہیں
نہ پانے سے کسی کے ہے نہ کچھ کھونے سے مطلب ہے
یہ دنیا ہے اسے تو کچھ نہ کچھ ہونے سے مطلب ہے
تمام دن کی طلب راہ دیکھتی ہوگی
جو خالی ہاتھ چلے ہو تو گھر نہیں جانا
ہونٹوں کو روز اک نئے دریا کی آرزو
لے جائے گی یہ پیاس کی آوارگی کہاں
تم میری طرف دیکھنا چھوڑو تو بتاؤں
ہر شخص تمہاری ہی طرف دیکھ رہا ہے
جھوٹ کے آگے پیچھے دریا چلتے ہیں
سچ بولا تو پیاسا مارا جائے گا
وہ پوچھتا تھا مری آنکھ بھیگنے کا سبب
مجھے بہانہ بنانا بھی تو نہیں آیا
-
موضوع : بہانہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
انہیں تو خاک میں ملنا ہی تھا کہ میرے تھے
یہ اشک کون سے اونچے گھرانے والے تھے
کسی سے کوئی بھی امید رکھنا چھوڑ کر دیکھو
تو یہ رشتہ نبھانا کس قدر آسان ہو جائے
رکھ دیتا ہے لا لا کے مقابل نئے سورج
وہ میرے چراغوں سے کہاں بول رہا ہے
جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا
-
موضوع : سچ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جسم کی چاہ لکیروں سے ادا کرتا ہے
خاک سمجھے گا مصور تری انگڑائی کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایسے رشتے کا بھرم رکھنا کوئی کھیل نہیں
تیرا ہونا بھی نہیں اور ترا کہلانا بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بھرے مکاں کا بھی اپنا نشہ ہے کیا جانے
شراب خانے میں راتیں گزارنے والا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کچھ ہے کہ جو گھر دے نہیں پاتا ہے کسی کو
ورنہ کوئی ایسے تو سفر میں نہیں رہتا
تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لیے لوٹیں
سلیقہ مند شاخوں کا لچک جانا ضروری ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آسماں اتنی بلندی پہ جو اتراتا ہے
بھول جاتا ہے زمیں سے ہی نظر آتا ہے
بہت سے خواب دیکھو گے تو آنکھیں
تمہارا ساتھ دینا چھوڑ دیں گی
اسی کو جینے کا حق ہے جو اس زمانے میں
ادھر کا لگتا رہے اور ادھر کا ہو جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی
دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے
میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا
اب اس کے بعد مرا امتحان کیا لے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں بھی اسے کھونے کا ہنر سیکھ نہ پایا
اس کو بھی مجھے چھوڑ کے جانا نہیں آتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جو مجھ میں تجھ میں چلا آ رہا ہے برسوں سے
کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو
وسیمؔ دیکھنا مڑ مڑ کے وہ اسی کی طرف
کسی کو چھوڑ کے جانا بھی تو نہیں آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مجھے پڑھتا کوئی تو کیسے پڑھتا
مرے چہرے پہ تم لکھے ہوئے تھے
وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا
مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمارے گھر کا پتا پوچھنے سے کیا حاصل
اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی
کوئی اشارہ دلاسا نہ کوئی وعدہ مگر
جب آئی شام ترا انتظار کرنے لگے
محبت کے گھروں کے کچے پن کو یہ کہاں سمجھیں
ان آنکھوں کو تو بس آتا ہے برساتیں بڑی کرنا
میں اس کو پوج تو سکتا ہوں چھو نہیں سکتا
جو فاصلوں کی طرح میرے ساتھ رہتا ہے
ترے خیال کے ہاتھوں کچھ ایسا بکھرا ہوں
کہ جیسے بچہ کتابیں ادھر ادھر کر دے
تجھے پانے کی کوشش میں کچھ اتنا کھو چکا ہوں میں
کہ تو مل بھی اگر جائے تو اب ملنے کا غم ہوگا
شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں
کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں اس کو آنسوؤں سے لکھ رہا ہوں
کہ میرے بعد کوئی پڑھ نہ پائے
ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف
پھر یہ بھی چاہتا ہے اسے راستا ملے
وہ غم عطا کیا دل دیوانہ جل گیا
ایسی بھی کیا شراب کہ پیمانہ جل گیا
مسلسل حادثوں سے بس مجھے اتنی شکایت ہے
کہ یہ آنسو بہانے کی بھی تو مہلت نہیں دیتے
اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے
جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ