Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Waseem Barelvi's Photo'

وسیم بریلوی

1940 | بریلی, انڈیا

مقبول عام شاعر

مقبول عام شاعر

وسیم بریلوی کے اشعار

174.7K
Favorite

باعتبار

چراغ گھر کا ہو محفل کا ہو کہ مندر کا

ہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی

تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں

زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے

سبھی رشتے گلابوں کی طرح خوشبو نہیں دیتے

کچھ ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو کانٹے چھوڑ جاتے ہیں

غم اور ہوتا سن کے گر آتے نہ وہ وسیمؔ

اچھا ہے میرے حال کی ان کو خبر نہیں

دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا

تم کو بھی تو اندازہ لگانا نہیں آتا

میں نے چاہا ہے تجھے عام سے انساں کی طرح

تو مرا خواب نہیں ہے جو بکھر جائے گا

اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے

تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے

آج پی لینے دے ساقی مجھے جی لینے دے

کل مری رات خدا جانے کہاں گزرے گی

وسیمؔ ذہن بناتے ہیں تو وہی اخبار

جو لے کے ایک بھی اچھی خبر نہیں آتے

شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں

اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

آتے آتے مرا نام سا رہ گیا

اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

پھول تو پھول ہیں آنکھوں سے گھرے رہتے ہیں

کانٹے بیکار حفاظت میں لگے رہتے ہیں

نہ پانے سے کسی کے ہے نہ کچھ کھونے سے مطلب ہے

یہ دنیا ہے اسے تو کچھ نہ کچھ ہونے سے مطلب ہے

تمام دن کی طلب راہ دیکھتی ہوگی

جو خالی ہاتھ چلے ہو تو گھر نہیں جانا

ہونٹوں کو روز اک نئے دریا کی آرزو

لے جائے گی یہ پیاس کی آوارگی کہاں

تم میری طرف دیکھنا چھوڑو تو بتاؤں

ہر شخص تمہاری ہی طرف دیکھ رہا ہے

جھوٹ کے آگے پیچھے دریا چلتے ہیں

سچ بولا تو پیاسا مارا جائے گا

وہ پوچھتا تھا مری آنکھ بھیگنے کا سبب

مجھے بہانہ بنانا بھی تو نہیں آیا

انہیں تو خاک میں ملنا ہی تھا کہ میرے تھے

یہ اشک کون سے اونچے گھرانے والے تھے

کسی سے کوئی بھی امید رکھنا چھوڑ کر دیکھو

تو یہ رشتہ نبھانا کس قدر آسان ہو جائے

رکھ دیتا ہے لا لا کے مقابل نئے سورج

وہ میرے چراغوں سے کہاں بول رہا ہے

جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے

اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا

جسم کی چاہ لکیروں سے ادا کرتا ہے

خاک سمجھے گا مصور تری انگڑائی کو

ایسے رشتے کا بھرم رکھنا کوئی کھیل نہیں

تیرا ہونا بھی نہیں اور ترا کہلانا بھی

کبھی لفظوں سے غداری نہ کرنا

غزل پڑھنا اداکاری نہ کرنا

بھرے مکاں کا بھی اپنا نشہ ہے کیا جانے

شراب خانے میں راتیں گزارنے والا

کچھ ہے کہ جو گھر دے نہیں پاتا ہے کسی کو

ورنہ کوئی ایسے تو سفر میں نہیں رہتا

تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لیے لوٹیں

سلیقہ مند شاخوں کا لچک جانا ضروری ہے

آسماں اتنی بلندی پہ جو اتراتا ہے

بھول جاتا ہے زمیں سے ہی نظر آتا ہے

بہت سے خواب دیکھو گے تو آنکھیں

تمہارا ساتھ دینا چھوڑ دیں گی

اسی کو جینے کا حق ہے جو اس زمانے میں

ادھر کا لگتا رہے اور ادھر کا ہو جائے

رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی

دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے

میں اس امید پہ ڈوبا کہ تو بچا لے گا

اب اس کے بعد مرا امتحان کیا لے گا

میں بھی اسے کھونے کا ہنر سیکھ نہ پایا

اس کو بھی مجھے چھوڑ کے جانا نہیں آتا

جو مجھ میں تجھ میں چلا آ رہا ہے برسوں سے

کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو

وسیمؔ دیکھنا مڑ مڑ کے وہ اسی کی طرف

کسی کو چھوڑ کے جانا بھی تو نہیں آیا

مجھے پڑھتا کوئی تو کیسے پڑھتا

مرے چہرے پہ تم لکھے ہوئے تھے

وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا

مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا

ہمارے گھر کا پتا پوچھنے سے کیا حاصل

اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی

کوئی اشارہ دلاسا نہ کوئی وعدہ مگر

جب آئی شام ترا انتظار کرنے لگے

محبت کے گھروں کے کچے پن کو یہ کہاں سمجھیں

ان آنکھوں کو تو بس آتا ہے برساتیں بڑی کرنا

میں اس کو پوج تو سکتا ہوں چھو نہیں سکتا

جو فاصلوں کی طرح میرے ساتھ رہتا ہے

ترے خیال کے ہاتھوں کچھ ایسا بکھرا ہوں

کہ جیسے بچہ کتابیں ادھر ادھر کر دے

تجھے پانے کی کوشش میں کچھ اتنا کھو چکا ہوں میں

کہ تو مل بھی اگر جائے تو اب ملنے کا غم ہوگا

شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں

کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے

میں اس کو آنسوؤں سے لکھ رہا ہوں

کہ میرے بعد کوئی پڑھ نہ پائے

ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف

پھر یہ بھی چاہتا ہے اسے راستا ملے

وہ غم عطا کیا دل دیوانہ جل گیا

ایسی بھی کیا شراب کہ پیمانہ جل گیا

مسلسل حادثوں سے بس مجھے اتنی شکایت ہے

کہ یہ آنسو بہانے کی بھی تو مہلت نہیں دیتے

اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے

جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے