Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Irfan Siddiqi's Photo'

عرفان صدیقی

1939 - 2004 | لکھنؤ, انڈیا

اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف

اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف

عرفان صدیقی کے اشعار

49K
Favorite

باعتبار

ہم نے دیکھا ہی تھا دنیا کو ابھی اس کے بغیر

لیجئے بیچ میں پھر دیدۂ تر آ گئے ہیں

مولیٰ، پھر مرے صحرا سے بن برسے بادل لوٹ گئے

خیر شکایت کوئی نہیں ہے اگلے برس برسا دینا

سنا تھا میں نے کہ فطرت خلا کی دشمن ہے

سو وہ بدن مری تنہائیوں کو پاٹ گیا

خراج مانگ رہی ہے وہ شاہ بانوئے شہر

سو ہم بھی ہدیۂ دست طلب گزارتے ہیں

عشق کیا کار ہوس بھی کوئی آسان نہیں

خیر سے پہلے اسی کام کے قابل ہو جاؤ

ہم نے مدت سے الٹ رکھا ہے کاسہ اپنا

دست دادار ترے درہم و دینار پہ خاک

اس کو منظور نہیں ہے مری گمراہی بھی

اور مجھے راہ پہ لانا بھی نہیں چاہتا ہے

بھول جاؤ گے کہ رہتے تھے یہاں دوسرے لوگ

کل پھر آباد کریں گے یہ مکاں دوسرے لوگ

یہ ہو کا وقت یہ جنگل گھنا یہ کالی رات

سنو یہاں کوئی خطرہ نہیں ٹھہر جاؤ

اے پرندو یاد کرتی ہے تمہیں پاگل ہوا

روز اک نوحہ سر شاخ شجر سنتا ہوں میں

عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا

مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے

آج تک ان کی خدائی سے ہے انکار مجھے

میں تو اک عمر سے کافر ہوں صنم جانتے ہیں

اٹھو یہ منظر شب تاب دیکھنے کے لیے

کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے

کچھ حرف و سخن پہلے تو اخبار میں آیا

پھر عشق مرا کوچہ و بازار میں آیا

ہم کون شناور تھے کہ یوں پار اترتے

سوکھے ہوئے ہونٹوں کی دعا لے گئی ہم کو

جان ہم کار محبت کا صلہ چاہتے تھے

دل سادہ کوئی مزدور ہے اجرت کیسی

دولت سر ہوں سو ہر جیتنے والا لشکر

طشت میں رکھتا ہے نیزے پہ سجاتا ہے مجھے

ایک میں ہوں کہ اس آشوب نوا میں چپ ہوں

ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے

ایک لڑکا شہر کی رونق میں سب کچھ بھول جائے

ایک بڑھیا روز چوکھٹ پر دیا روشن کرے

حریف تیغ ستم گر تو کر دیا ہے تجھے

اب اور مجھ سے تو کیا چاہتا ہے سر میرے

انہیں کی شہ سے انہیں مات کرتا رہتا ہوں

ستم گروں کی مدارات کرتا رہتا ہوں

ہم بڑے اہل خرد بنتے تھے یہ کیا ہو گیا

عقل کا ہر مشورہ دیوانہ پن لگنے لگا

سمندر ادا فہم تھا رک گیا

کہ ہم پاؤں پانی پہ دھرنے کو تھے

سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی

دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے

میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ

تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ

جسم کی رعنائیوں تک خواہشوں کی بھیڑ ہے

یہ تماشا ختم ہو جائے تو گھر جائیں گے لوگ

اداس خشک لبوں پر لرز رہا ہوگا

وہ ایک بوسہ جو اب تک مری جبیں پہ نہیں

تم پرندوں سے زیادہ تو نہیں ہو آزاد

شام ہونے کو ہے اب گھر کی طرف لوٹ چلو

خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی

جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے

رفاقتوں کو ذرا سوچنے کا موقع دو

کہ اس کے بعد گھنے جنگلوں کا رستہ ہے

ہم تو رات کا مطلب سمجھیں خواب، ستارے، چاند، چراغ

آگے کا احوال وہ جانے جس نے رات گزاری ہو

مگر گرفت میں آتا نہیں بدن اس کا

خیال ڈھونڈھتا رہتا ہے استعارہ کوئی

کہا تھا تم نے کہ لاتا ہے کون عشق کی تاب

سو ہم جواب تمہارے سوال ہی کے تو ہیں

اس کو رہتا ہے ہمیشہ مری وحشت کا خیال

میرے گم گشتہ غزالوں کا پتا چاہتی ہے

میں چاہتا ہوں یہیں سارے فیصلے ہو جائیں

کہ اس کے بعد یہ دنیا کہاں سے لاؤں گا میں

میں جھپٹنے کے لیے ڈھونڈھ رہا ہوں موقع

اور وہ شوخ سمجھتا ہے کہ شرماتا ہوں

درد کیسا جو ڈبوئے نہ بہا لے جائے

کیا ندی جس میں روانی ہو نہ گہرائی ہو

ترے سوا کوئی کیسے دکھائی دے مجھ کو

کہ میری آنکھوں پہ ہے دست غائبانہ ترا

کیا جذب عشق مجھ سے زیادہ تھا غیر میں

اس کا حبیب اس سے جدا کیوں نہیں ہوا

سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا

ہمیں تو خیر بکھرنا ہی تھا کبھی نہ کبھی

ہوائے تازہ کا جھونکا بہانہ ہو گیا ہے

جانے کیا ٹھان کے اٹھتا ہوں نکلنے کے لیے

جانے کیا سوچ کے دروازے سے لوٹ آتا ہوں

ہم سب آئینہ در آئینہ در آئینہ ہیں

کیا خبر کون کہاں کس کی طرف دیکھتا ہے

روپ کی دھوپ کہاں جاتی ہے معلوم نہیں

شام کس طرح اتر آتی ہے رخساروں پر

دیکھ لیتا ہے تو کھلتے چلے جاتے ہیں گلاب

میری مٹی کو خوش آثار کیا ہے اس نے

میں کہاں تک دل سادہ کو بھٹکنے سے بچاؤں

آنکھ جب اٹھے گنہ گار بنا دے مجھ کو

مرے گماں نے مرے سب یقیں جلا ڈالے

ذرا سا شعلہ بھری بستیوں کو چاٹ گیا

ہم بھی پتھر تم بھی پتھر سب پتھر ٹکراؤ

ہم بھی ٹوٹیں تم بھی ٹوٹو سب ٹوٹیں آمین

آخر شب ہوئی آغاز کہانی اپنی

ہم نے پایا بھی تو اک عمر گنوا کر اس کو

یہ ہم نے بھی سنا ہے عالم اسباب ہے دنیا

یہاں پھر بھی بہت کچھ بے سبب ہوتا ہی رہتا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے