Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Javed Akhtar's Photo'

جاوید اختر

1945 | ممبئی, انڈیا

فلم اسکرپٹ رائٹر، نغمہ نگار اور شاعر۔ ’ شعلے‘ اور ’ دیوار‘ جیسی فلموں کے لئے مشہور۔

فلم اسکرپٹ رائٹر، نغمہ نگار اور شاعر۔ ’ شعلے‘ اور ’ دیوار‘ جیسی فلموں کے لئے مشہور۔

جاوید اختر کے اشعار

43.9K
Favorite

باعتبار

میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا

وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا

اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی

سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں

آگہی سے ملی ہے تنہائی

آ مری جان مجھ کو دھوکا دے

مجھے دشمن سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے

کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا

کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا

خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا

کبھی ہم کو یقیں تھا زعم تھا دنیا ہماری جو مخالف ہو تو ہو جائے مگر تم مہرباں ہو

ہمیں یے بات ویسے یاد تو اب کیا ہے لیکن ہاں اسے یکسر بھلانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے

بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا

ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا

اسی جگہ اسی دن تو ہوا تھا یہ اعلان

اندھیرے ہار گئے زندہ باد ہندوستان

یہ زندگی بھی عجب کاروبار ہے کہ مجھے

خوشی ہے پانے کی کوئی نہ رنج کھونے کا

مجھے مایوس بھی کرتی نہیں ہے

یہی عادت تری اچھی نہیں ہے

اگر پلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی

ہنر بھی چاہئے الفاظ میں پرونے کا

غلط باتوں کو خاموشی سے سننا حامی بھر لینا

بہت ہیں فائدے اس میں مگر اچھا نہیں لگتا

ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے

صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے

یاد اسے بھی ایک ادھورا افسانہ تو ہوگا

کل رستے میں اس نے ہم کو پہچانا تو ہوگا

ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے

لیکن ایک سفر پر اے دل اب جانا تو ہوگا

اس کے بندوں کو دیکھ کر کہئے

ہم کو امید کیا خدا سے رہے

پھر خموشی نے ساز چھیڑا ہے

پھر خیالات نے لی انگڑائی

پر سکوں لگتی ہے کتنی جھیل کے پانی پہ بط

پیروں کی بے تابیاں پانی کے اندر دیکھیے

جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا

مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا

غیروں کو کب فرصت ہے دکھ دینے کی

جب ہوتا ہے کوئی ہمدم ہوتا ہے

ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا

ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں

کل جہاں دیوار تھی ہے آج اک در دیکھیے

کیا سمائی تھی بھلا دیوانے کے سر دیکھیے

چھت کی کڑیوں سے اترتے ہیں مرے خواب مگر

میری دیواروں سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں

تھیں سجی حسرتیں دکانوں پر

زندگی کے عجیب میلے تھے

ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا

کیوں گلہ پھر ہمیں ہوا سے رہے

ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی

قدم رکھا کہ منزل راستا تھی

تم بیٹھے ہو لیکن جاتے دیکھ رہا ہوں

میں تنہائی کے دن آتے دیکھ رہا ہوں

میں بھول جاؤں تمہیں اب یہی مناسب ہے

مگر بھلانا بھی چاہوں تو کس طرح بھولوں

دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ

جو ہوتا ہے سہہ لیتے ہیں کیسے ہیں بے چارے لوگ

ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے

بہت سے زرد چہروں پر غبار غم ہے کم بے شک پر ان کو مسکرانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے

اک محبت کی یہ تصویر ہے دو رنگوں میں

شوق سب میرا ہے اور ساری حیا اس کی ہے

میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا

مرے انجام کی وہ ابتدا تھی

دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے

نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا

یہی حالات ابتدا سے رہے

لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے

عقل یہ کہتی ہے دنیا ملتی ہے بازار میں

دل مگر یہ کہتا ہے کچھ اور بہتر دیکھیے

اس کی آنکھوں میں بھی کاجل پھیل رہا ہے

میں بھی مڑ کے جاتے جاتے دیکھ رہا ہوں

ہر طرف شور اسی نام کا ہے دنیا میں

کوئی اس کو جو پکارے تو پکارے کیسے

میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں لیکن

مرے لہو سے تمہاری دیوار گل رہی ہے

کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے

مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی

کوئی شکوہ نہ غم نہ کوئی یاد

بیٹھے بیٹھے بس آنکھ بھر آئی

خون سے سینچی ہے میں نے جو زمیں مر مر کے

وہ زمیں ایک ستم گر نے کہا اس کی ہے

نیکی اک دن کام آتی ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو

ہم نے بے بس مرتے دیکھے کیسے پیارے پیارے لوگ

اس شہر میں جینے کے انداز نرالے ہیں

ہونٹوں پہ لطیفے ہیں آواز میں چھالے ہیں

تم یہ کہتے ہو کہ میں غیر ہوں پھر بھی شاید

نکل آئے کوئی پہچان ذرا دیکھ تو لو

تب ہم دونوں وقت چرا کر لاتے تھے

اب ملتے ہیں جب بھی فرصت ہوتی ہے

اک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں

ڈھونڈھتا پھرا اس کو وہ نگر نگر تنہا

سب کا خوشی سے فاصلہ ایک قدم ہے

ہر گھر میں بس ایک ہی کمرہ کم ہے

ہے پاش پاش مگر پھر بھی مسکراتا ہے

وہ چہرہ جیسے ہو ٹوٹے ہوئے کھلونے کا

اونچی عمارتوں سے مکاں میرا گھر گیا

کچھ لوگ میرے حصے کا سورج بھی کھا گئے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے