Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Kaleem Aajiz's Photo'

کلیم عاجز

1926 - 2015 | پٹنہ, انڈیا

کلاسیکی لہجے کےلئے ممتاز اور مقبول شاعر

کلاسیکی لہجے کےلئے ممتاز اور مقبول شاعر

کلیم عاجز کے اشعار

28.4K
Favorite

باعتبار

وہ کہتے ہیں ہر چوٹ پر مسکراؤ

وفا یاد رکھو ستم بھول جاؤ

بات چاہے بے سلیقہ ہو کلیمؔ

بات کہنے کا سلیقہ چاہئے

دل درد کی بھٹی میں کئی بار جلے ہے

تب ایک غزل حسن کے سانچے میں ڈھلے ہے

زندگی مائل فریاد و فغاں آج بھی ہے

کل بھی تھا سینے پہ اک سنگ گراں آج بھی ہے

یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا

جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا

یہ کیسی بہار چمن آئی کہ چمن میں

ویرانہ ہی ویرانہ ہے تا حد نظر آج

ہاں کچھ بھی تو دیرینہ محبت کا بھرم رکھ

دل سے نہ آ دنیا کو دکھانے کے لئے آ

آزمانا ہے تو آ بازو و دل کی قوت

تو بھی شمشیر اٹھا ہم بھی غزل کہتے ہیں

غرض کسی سے نہ اے دوستو کبھو رکھیو

بس اپنے ہاتھ یہاں اپنی ابرو رکھیو

رکھنا ہے کہیں پاؤں تو رکھو ہو کہیں پاؤں

چلنا ذرا آیا ہے تو اترائے چلو ہو

اٹھتے ہوؤں کو سب نے سہارا دیا کلیمؔ

گرتے ہوئے غریب سنبھالے کہاں گئے

مری شاعری میں نہ رقص جام نہ مے کی رنگ فشانیاں

وہی دکھ بھروں کی حکایتیں وہی دل جلوں کی کہانیاں

سنے گا کون میری چاک دامانی کا افسانہ

یہاں سب اپنے اپنے پیرہن کی بات کرتے ہیں

دن ایک ستم ایک ستم رات کرو ہو

وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو

غم ہے تو کوئی لطف نہیں بستر گل پر

جی خوش ہے تو کانٹوں پہ بھی آرام بہت ہے

میری غزل کو میری جاں فقط غزل نہ سمجھ

اک آئنہ ہے جو ہر دم ترے مقابل ہے

اپنا دل سینۂ اشعار میں رکھ دیتے ہیں

کچھ حقیقت بھی ضروری ہے فسانے کے لئے

اپنا لہو بھر کر لوگوں کو بانٹ گئے پیمانے لوگ

دنیا بھر کو یاد رہیں گے ہم جیسے دیوانے لوگ

مے کدے کی طرف چلا زاہد

صبح کا بھولا شام گھر آیا

تمہیں یاد ہی نہ آؤں یہ ہے اور بات ورنہ

میں نہیں ہوں دور اتنا کہ سلام تک نہ پہنچے

سنا ہے ہمیں بے وفا تم کہو ہو

ذرا ہم سے آنکھیں ملا لو تو جانیں

انہیں کے گیت زمانے میں گائے جائیں گے

جو چوٹ کھائیں گے اور مسکرائے جائیں گے

کیا ستم ہے کہ وہ ظالم بھی ہے محبوب بھی ہے

یاد کرتے نہ بنے اور بھلائے نہ بنے

اب انسانوں کی بستی کا یہ عالم ہے کہ مت پوچھو

لگے ہے آگ اک گھر میں تو ہمسایہ ہوا دے ہے

شکایت ان سے کرنا گو مصیبت مول لینا ہے

مگر عاجزؔ غزل ہم بے سنائے دم نہیں لیں گے

مرنا تو بہت سہل سی اک بات لگے ہے

جینا ہی محبت میں کرامات لگے ہے

عشق میں موت کا نام ہے زندگی

جس کو جینا ہو مرنا گوارا کرے

گزر جائیں گے جب دن گزرے عالم یاد آئیں گے

ہمیں تم یاد آؤ گے تمہیں ہم یاد آئیں گے

بہت دشوار سمجھانا ہے غم کا

سمجھ لینے میں دشواری نہیں ہے

ہمارے قتل سے قاتل کو تجربہ یہ ہوا

لہو لہو بھی ہے مہندی بھی ہے شراب بھی ہے

خموشی میں ہر بات بن جائے ہے

جو بولے ہے دیوانہ کہلائے ہے

وہ ستم نہ ڈھائے تو کیا کرے اسے کیا خبر کہ وفا ہے کیا؟

تو اسی کو پیار کرے ہے کیوں یہ کلیمؔ تجھ کو ہوا ہے کیا؟

تپش پتنگوں کو بخش دیں گے لہو چراغوں میں ڈھال دیں گے

ہم ان کی محفل میں رہ گئے ہیں تو ان کی محفل سنبھال دیں گے

تجھے سنگ دل یہ پتہ ہے کیا کہ دکھے دلوں کی صدا ہے کیا؟

کبھی چوٹ تو نے بھی کھائی ہے کبھی تیرا دل بھی دکھا ہے کیا؟

دنیا میں غریبوں کو دو کام ہی آتے ہیں

کھانے کے لیے جینا جینے کے لیے کھانا

کرے ہے عداوت بھی وہ اس ادا سے

لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے

ذرا دیکھ آئنہ میری وفا کا

کہ تو کیسا تھا اب کیسا لگے ہے

نہ جانے روٹھ کے بیٹھا ہے دل کا چین کہاں

ملے تو اس کو ہمارا کوئی سلام کہے

میں محبت نہ چھپاؤں تو عداوت نہ چھپا

نہ یہی راز میں اب ہے نہ وہی راز میں ہے

مرا حال پوچھ کے ہم نشیں مرے سوز دل کو ہوا نہ دے

بس یہی دعا میں کروں ہوں اب کہ یہ غم کسی کو خدا نہ دے

وہ بات ذرا سی جسے کہتے ہیں غم دل

سمجھانے میں اک عمر گزر جائے ہے پیارے

  • موضوعات : دل
    اور 1 مزید

اک گھر بھی سلامت نہیں اب شہر وفا میں

تو آگ لگانے کو کدھر جائے ہے پیارے

مے میں کوئی خامی ہے نہ ساغر میں کوئی کھوٹ

پینا نہیں آئے ہے تو چھلکائے چلو ہو

موسم گل ہمیں جب یاد آیا

جتنا غم بھولے تھے سب یاد آیا

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

ادھر آ ہم دکھاتے ہیں غزل کا آئنہ تجھ کو

یہ کس نے کہہ دیا گیسو ترے برہم نہیں پیارے

بھلا آدمی تھا پہ نادان نکلا

سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے

دل تھام کے کروٹ پہ لئے جاؤں ہوں کروٹ

وہ آگ لگی ہے کہ بجھائے نہ بنے ہے

کل کہتے رہے ہیں وہی کل کہتے رہیں گے

ہر دور میں ہم ان پہ غزل کہتے رہیں گے

وہی تو عمر میرے درد دل کی بھی ہوگی

ترے شباب کا یہ کون سال ہے پیارے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے