Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khumar Barabankavi's Photo'

خمار بارہ بنکوی

1919 - 1999 | بارہ بنکی, انڈیا

مقبول عام شاعر، فلمی نغمے بھی لکھے

مقبول عام شاعر، فلمی نغمے بھی لکھے

خمار بارہ بنکوی کے اشعار

60.4K
Favorite

باعتبار

رات باقی تھی جب وہ بچھڑے تھے

کٹ گئی عمر رات باقی ہے

حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ

کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں

نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے

ہاتھ اٹھتا نہیں ہے دل سے خمارؔ

ہم انہیں کس طرح سلام کریں

مرے راہ بر مجھ کو گمراہ کر دے

سنا ہے کہ منزل قریب آ گئی ہے

جھنجھلائے ہیں لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں

کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں

دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا

دوستوں کو آزماتے جائیے

دوسروں پر اگر تبصرہ کیجئے

سامنے آئنہ رکھ لیا کیجئے

اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے

وہ آ بھی جائیں تو آئے نہ اعتبار مجھے

غم ہے نہ اب خوشی ہے نہ امید ہے نہ یاس

سب سے نجات پائے زمانے گزر گئے

ہم پہ گزرا ہے وہ بھی وقت خمارؔ

جب شناسا بھی اجنبی سے ملے

تجھ کو برباد تو ہونا تھا بہرحال خمارؔ

ناز کر ناز کہ اس نے تجھے برباد کیا

الٰہی مرے دوست ہوں خیریت سے

یہ کیوں گھر میں پتھر نہیں آ رہے ہیں

دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا ہے

دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد

مجھے کو محرومئ نظارہ قبول

آپ جلوے نہ اپنے عام کریں

جلتے دیوں میں جلتے گھروں جیسی ضو کہاں

سرکار روشنی کا مزا ہم سے پوچھئے

وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں

جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں

حال غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے

تیر مارے تھے تیر کھا بیٹھے

او جانے والے آ کہ ترے انتظار میں

رستے کو گھر بنائے زمانے گزر گئے

بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم

قسطوں میں خودکشی کا مزا ہم سے پوچھئے

ہم بھی کر لیں جو روشنی گھر میں

پھر اندھیرے کہاں قیام کریں

حد سے بڑھے جو علم تو ہے جہل دوستو

سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں

آج ناگاہ ہم کسی سے ملے

بعد مدت کے زندگی سے ملے

آپ نے دن بنا دیا تھا جسے

زندگی بھر وہ رات یاد آئی

یاد کرنے پہ بھی دوست آئے نہ یاد

دوستوں کے کرم یاد آتے رہے

یہ کہنا تھا ان سے محبت ہے مجھ کو

یہ کہنے میں مجھ کو زمانے لگے ہیں

ہٹائے تھے جو راہ سے دوستوں کی

وہ پتھر مرے گھر میں آنے لگے ہیں

نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی

یہ کہاں پہنچ گئے ہیں تری بزم سے نکل کے

نہ ہارا ہے عشق اور نہ دنیا تھکی ہے

دیا جل رہا ہے ہوا چل رہی ہے

عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمارؔ

عقل کی سنیے دل کا کہا کیجئے

محبت کو سمجھنا ہے تو ناصح خود محبت کر

کنارے سے کبھی اندازۂ طوفاں نہیں ہوتا

روشنی کے لیے دل جلانا پڑا

کیسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد

کہیں شعر و نغمہ بن کے کہیں آنسوؤں میں ڈھل کے

وہ مجھے ملے تو لیکن کئی صورتیں بدل کے

سنا ہے ہمیں وہ بھلانے لگے ہیں

تو کیا ہم انہیں یاد آنے لگے ہیں

یہ وفا کی سخت راہیں یہ تمہارے پاؤں نازک

نہ لو انتقام مجھ سے مرے ساتھ ساتھ چل کے

مجھے تو ان کی عبادت پہ رحم آتا ہے

جبیں کے ساتھ جو سجدے میں دل جھکا نہ سکے

صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی

واقف نہیں شاید مرے اجڑے ہوئے گھر سے

پھول کر لے نباہ کانٹوں سے

آدمی ہی نہ آدمی سے ملے

اک گزارش ہے حضرت ناصح

آپ اب اور کوئی کام کریں

ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی

جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی

خدا بچائے تری مست مست آنکھوں سے

فرشتہ ہو تو بہک جائے آدمی کیا ہے

گزرے ہیں میکدے سے جو توبہ کے بعد ہم

کچھ دور عادتاً بھی قدم ڈگمگائے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے