Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Wahshat Raza Ali Kalkatvi's Photo'

وحشتؔ رضا علی کلکتوی

1881 - 1956 | کولکاتا, انڈیا

بنگال کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر

بنگال کے ممتاز مابعد کلاسیکی شاعر

وحشتؔ رضا علی کلکتوی کے اشعار

5.2K
Favorite

باعتبار

تیرا مرنا عشق کا آغاز تھا

موت پر ہوگا مرے انجام عشق

کس طرح حسن زباں کی ہو ترقی وحشتؔ

میں اگر خدمت اردوئے معلیٰ نہ کروں

ہم نے عالم سے بے وفائی کی

ایک معشوق بے وفا کے لیے

نشان منزل جاناں ملے ملے نہ ملے

مزے کی چیز ہے یہ ذوق جستجو میرا

سچ کہا ہے کہ بہ امید ہے دنیا قائم

دل حسرت زدہ بھی تیرا تمنائی ہے

زمانہ بھی مجھ سے نا موافق میں آپ بھی دشمن سلامت

تعجب اس کا ہے بوجھ کیونکر میں زندگی کا اٹھا رہا ہوں

تو ہم سے ہے بدگماں صد افسوس

تیرے ہی تو جاں نثار ہیں ہم

وحشتؔ سخن و لطف سخن اور ہی شے ہے

دیوان میں یاروں کے تو اشعار بہت ہیں

اور عشرت کی تمنا کیا کریں

سامنے تو ہو تجھے دیکھا کریں

سینے میں مرے داغ غم عشق نبی ہے

اک گوہر نایاب مرے ہاتھ لگا ہے

ظالم کی تو عادت ہے ستاتا ہی رہے گا

اپنی بھی طبیعت ہے بہلتی ہی رہے گی

اس زمانے میں خموشی سے نکلتا نہیں کام

نالہ پر شور ہو اور زوروں پہ فریاد رہے

زمیں روئی ہمارے حال پر اور آسماں رویا

ہماری بیکسی کو دیکھ کر سارا جہاں رویا

ہر چند وحشتؔ اپنی غزل تھی گری ہوئی

محفل سخن کی گونج اٹھی واہ واہ سے

بے جا ہے تری جفا کا شکوہ

مارا مجھ کو مری وفا نے

بڑھ چلی ہے بہت حیا تیری

مجھ کو رسوا نہ کر خدا کے لیے

مزہ آتا اگر گزری ہوئی باتوں کا افسانہ

کہیں سے تم بیاں کرتے کہیں سے ہم بیاں کرتے

عزیز اگر نہیں رکھتا نہ رکھ ذلیل ہی رکھ

مگر نکال نہ تو اپنی انجمن سے مجھے

میرا مقصد کہ وہ خوش ہوں مری خاموشی سے

ان کو اندیشہ کہ یہ بھی کوئی فریاد نہ ہو

خاک میں کس دن ملاتی ہے مجھے

اس سے ملنے کی تمنا دیکھیے

کچھ سمجھ کر ہی ہوا ہوں موج دریا کا حریف

ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے

ابھی ہوتے اگر دنیا میں داغؔ دہلوی زندہ

تو وہ سب کو بتا دیتے ہے وحشتؔ کی زباں کیسی

اٹھا لینے سے تو دل کے رہا میں

تو اب ظالم وفا کر یا جفا کر

تمہارا مدعا ہی جب سمجھ میں کچھ نہیں آیا

تو پھر مجھ پر نظر ڈالی یہ تم نے مہرباں کیسی

جو گرفتار تمہارا ہے وہی ہے آزاد

جس کو آزاد کرو تم کبھی آزاد نہ ہو

دونوں نے بڑھائی رونق حسن

شوخی نے کبھی کبھی حیا نے

مرے تو دل میں وہی شوق ہے جو پہلے تھا

کچھ آپ ہی کی طبیعت بدل گئی ہوگی

نہیں ممکن لب عاشق سے حرف مدعا نکلے

جسے تم نے کیا خاموش اس سے کیا صدا نکلے

رخ روشن سے یوں اٹھی نقاب آہستہ آہستہ

کہ جیسے ہو طلوع آفتاب آہستہ آہستہ

وہ کام میرا نہیں جس کا نیک ہو انجام

وہ راہ میری نہیں جو گئی ہو منزل کو

مجال ترک محبت نہ ایک بار ہوئی

خیال ترک محبت تو بار بار کیا

آغاز سے ظاہر ہوتا ہے انجام جو ہونے والا ہے

انداز زمانہ کہتا ہے پوری ہو تمنا مشکل ہے

یہاں ہر آنے والا بن کے عبرت کا نشاں آیا

گیا زیر زمیں جو کوئی زیر آسماں آیا

اے مشعل امید یہ احسان کم نہیں

تاریک شب کو تو نے درخشاں بنا دیا

بزم میں اس بے مروت کی مجھے

دیکھنا پڑتا ہے کیا کیا دیکھیے

گردن جھکی ہوئی ہے اٹھاتے نہیں ہیں سر

ڈر ہے انہیں نگاہ لڑے گی نگاہ سے

زندگی اپنی کسی طرح بسر کرنی ہے

کیا کروں آہ اگر تیری تمنا نہ کروں

وحشتؔ اس بت نے تغافل جب کیا اپنا شعار

کام خاموشی سے میں نے بھی لیا فریاد کا

زبردستی غزل کہنے پہ تم آمادہ ہو وحشتؔ

طبیعت جب نہ ہو حاضر تو پھر مضمون کیا نکلے

اے اہل وفا خاک بنے کام تمہارا

آغاز بتا دیتا ہے انجام تمہارا

محنت ہو مصیبت ہو ستم ہو تو مزا ہے

ملنا ترا آساں ہے طلب گار بہت ہیں

کٹھن ہے کام تو ہمت سے کام لے اے دل

بگاڑ کام نہ مشکل سمجھ کے مشکل کو

نہ وہ پوچھتے ہیں نہ کہتا ہوں میں

رہی جاتی ہے دل کی دل میں ہوس

دونوں نے کیا ہے مجھ کو رسوا

کچھ درد نے اور کچھ دوا نے

تھا قفس کا خیال دامن گیر

اڑ سکے ہم نہ بال و پر لے کر

آنکھ میں جلوہ ترا دل میں تری یاد رہے

یہ میسر ہو تو پھر کیوں کوئی ناشاد رہے

قدردانی کی کیفیت معلوم

عیب کیا ہے اگر ہنر نہ ہوا

دل کو ہم کب تک بچائے رکھتے ہر آسیب سے

ٹھیس آخر لگ گئی شیشے میں بال آ ہی گیا

بڑھا ہنگامۂ شوق اس قدر بزم حریفاں میں

کہ رخصت ہو گیا اس کا حجاب آہستہ آہستہ

تو ہے اور عیش ہے اور انجمن آرائی ہے

میں ہوں اور رنج ہے اور گوشۂ تنہائی ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے