Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

آغا اکبرآبادی

- 1879

ممتاز کلا سکی شاعر،غزلوں میں غیر روایتی عشق اور رومان پسندی کے لیے معروف ،داغ کے ہم عصر

ممتاز کلا سکی شاعر،غزلوں میں غیر روایتی عشق اور رومان پسندی کے لیے معروف ،داغ کے ہم عصر

آغا اکبرآبادی کے اشعار

3K
Favorite

باعتبار

ہمیں تو ان کی محبت ہے کوئی کچھ سمجھے

ہمارے ساتھ محبت انہیں نہیں تو نہیں

کسی کو کوستے کیوں ہو دعا اپنے لیے مانگو

تمہارا فائدہ کیا ہے جو دشمن کا ضرر ہوگا

رقیب قتل ہوا اس کی تیغ ابرو سے

حرام زادہ تھا اچھا ہوا حلال ہوا

ہم نہ کہتے تھے کہ سودا زلف کا اچھا نہیں

دیکھیے تو اب سر بازار رسوا کون ہے

میکشوں میں نہ کوئی مجھ سا نمازی ہوگا

در مے خانہ پہ بچھتا ہے مصلیٰ اپنا

صنم پرستی کروں ترک کیوں کر اے واعظ

بتوں کا ذکر خدا کی کتاب میں دیکھا

ہاتھ دونوں مری گردن میں حمائل کیجے

اور غیروں کو دکھا دیجے انگوٹھا اپنا

کسی صیاد کی پڑ جائے نہ چڑیا پہ نظر

آپ سرکائیں نہ محرم سے دوپٹا اپنا

کچھ ایسی پلا دے مجھے اے پیر مغاں آج

قینچی کی طرح چلنے لگی میری زباں آج

تا مرگ مجھ سے ترک نہ ہوگی کبھی نماز

پر نشۂ شراب نے مجبور کر دیا

دیکھیے پار ہو کس طرح سے بیڑا اپنا

مجھ کو طوفاں کی خبر دیدۂ تر دیتے ہیں

بت نظر آئیں گے معشوقوں کی کثرت ہوگی

آج بت خانہ میں اللہ کی قدرت ہوگی

شراب پیتے ہیں تو جاگتے ہیں ساری رات

مدام عابد شب زندہ دار ہم بھی ہیں

دوشالہ شال کشمیری امیروں کو مبارک ہو

گلیم کہنہ میں جاڑا فقیروں کا بسر ہوگا

زاہدو کعبہ کی جانب کھینچتے ہو کیوں مجھے

جی نہیں لگتا کبھی مزدور کا بیگار میں

شکایت مجھ کو دونوں سے ہے ناصح ہو کہ واعظ ہو

نہ سمجھا ہوں نہ سمجھوں سر پھرا لے جس کا جی چاہے

در بدر پھرنے نے میری قدر کھوئی اے فلک

ان کے دل میں ہی جگہ ملتی جو خلوت مانگتا

ان پری رویوں کی ایسی ہی اگر کثرت رہی

تھوڑے عرصہ میں پرستاں آگرہ ہو جائے گا

مے کشو دیر ہے کیا دور چلے بسم اللہ

آئی ہے شیشہ و ساغر کی طلب گار گھٹا

جی چاہتا ہے اس بت کافر کے عشق میں

تسبیح توڑ ڈالیے زنار دیکھ کر

پان کھا کر جو اگال آپ نے تھوکا صاحب

جوہری محو ہوے لعل یمن یاد آیا

رند مشرب ہیں کسی سے ہمیں کچھ کام نہیں

دیر اپنا ہے نہ کعبہ نہ کلیسا اپنا

او ستم گر تری تلوار کا دھبا چھٹ جائے

اپنے دامن کو لہو سے مرے بھر جانے دے

طواف کعبہ کو کیا جائیں حج نہیں واجب

کلال خانہ کے کچھ دین دار ہم بھی ہیں

دیکھو تو ایک جا پہ ٹھہرتی نہیں نظر

لپکا پڑا ہے آنکھ کو کیا دیکھ بھال کا

دشت وحشت خیز میں عریاں ہے آغاؔ آپ ہی

قاصد جاناں کو کیا دیتا جو خلعت مانگتا

جنوں کے ہاتھ سے ہے ان دنوں گریباں تنگ

قبا پکارتی ہے تار تار ہم بھی ہیں

وعدۂ بادۂ اطہر کا بھروسہ کب تک

چل کے بھٹی پہ پئیں جرعۂ عرفاں کیسا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے