Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Dattatriya Kaifi's Photo'

دتا تریہ کیفی

1866 - 1955 | دلی, انڈیا

عربی، فارسی اور سنسکرت کے ممتاز اسکالر

عربی، فارسی اور سنسکرت کے ممتاز اسکالر

دتا تریہ کیفی کے اشعار

1.9K
Favorite

باعتبار

بول اٹھتی کبھی چڑیا جو تری انگیا کی

خوشنوائی کی نہ یوں جیتتی بلبل پالی

سچ ہے ان دونوں کا ہے اک عالم

میری تنہائی تیری یکتائی

جو دل و ایماں نہ دیں نذراں بتوں کو دیکھ کر

یا خدا وہ لوگ اس دنیا میں آئے کس لئے

ڈھونڈھنے سے یوں تو اس دنیا میں کیا ملتا نہیں

سچ اگر پوچھو تو سچا آشنا ملتا نہیں

وفا پر دغا صلح میں دشمنی ہے

بھلائی کا ہرگز زمانہ نہیں ہے

جو چشم دل ربا کے وصف میں اشعار لکھتا ہوں

تو ہر ہر لفظ پر اہل نظر اک صاد کرتے ہیں

اک خواب کا خیال ہے دنیا کہیں جسے

ہے اس میں اک طلسم تمنا کہیں جسے

تلخ کہتے تھے لو اب پی کے تو بولو زاہد

ہاتھ آئے ادھر استاد مزا ہے کہ نہیں

معلوم ہے وعدے کی حقیقت

بہلا لیتے ہیں اپنے جی کو

حال دل لکھتے نہ لوگوں کی زباں میں پڑتے

وجہ انگشت نمائی یہ قلم ہے ہم کو

عقدۂ قسمت نہیں کھلتا مرا

یہ بھی ترا بند قبا ہو گیا

اصل وحدت کی بنا ہے عدم غیریت

اس کا جب رنگ جما غیر کو اپنا جانا

تم سے اب کیا کہیں وہ چیز ہے داغ غم عشق

کہ چھپائے نہ چھپے اور دکھائے نہ بنے

وہ کہا کرتے ہیں کوٹھوں چڑھی ہونٹوں نکلی

دل میں ہی رکھنا جو کل رات ہوا کوٹھے پر

کوئی دل لگی دل لگانا نہیں ہے

قیامت ہے یہ دل کا آنا نہیں ہے

رہنے دے ذکر خم زلف مسلسل کو ندیم

اس کے تو دھیان سے بھی ہوتا ہے دل کو الجھاؤ

سیل گریہ کی بدولت یہ ہوا گھر کا حال

خاک تک بھی نہ ملی بہر تیمم مجھ کو

وصل کا کرتا ہوں جب ذکر ان سے

اک تبسم تہ لب کرتے ہیں

وضو ہوتا ہے یاں تو شیخ اسی آب‌‌ گلابی سے

تیمم کے لئے تم خاک جا کر دشت میں پھانکو

دیر و کعبہ میں بھٹکتے پھر رہے ہیں رات دن

ڈھونڈھنے سے بھی تو بندوں کو خدا ملتا نہیں

دم غنیمت ہے سالکو میرا

جرس دور کی صدا ہوں میں

خبر کسے صبح و شام کی ہے تعینات اور قیود کیسے

نماز کس کی وہاں کسی کو خیال تک بھی نہیں وضو کا

معجزہ حضرت عیسیٰ کا تھا بے شبہ درست

کہ میں دنیا سے گیا اٹھ جو کہا قم مجھ کو

نفس کو مار کر ملے جنت

یہ سزا قابل قیاس نہیں

تو دیکھ رہا ہے جو مرا حال ہے قاصد

مجھ کو یہی کہنا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

یا الٰہی مجھ کو یہ کیا ہو گیا

دوستی کا تیری سودا ہو گیا

یوں آؤ مرے پہلو میں تم گھر سے نکل کر

بو آتی ہے جس طرح گل تر سے نکل کر

کہنے کو تو کہہ گئے ہو سب کچھ

اب کوئی جواب دے تو کیا ہو

عشق نے جس دل پہ قبضہ کر لیا

پھر کہاں اس میں نشاط و غم رہے

اردو ہے جس کا نام ہماری زبان ہے

دنیا کی ہر زبان سے پیاری زبان ہے

سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں دہر کا وجود

کیفیؔ یہ بات وہ ہے معما کہیں جسے

ہے عکس آئنہ دل میں کسی بلقیس ثانی کا

تصور ہے مرا استاد بہزاد اور مانی کا

بادبانوں میں بھری ہے اس کے کیا باد نفس

کشتئ عمر رواں کو تاب لنگر کی نہیں

شمع رویوں کی محبت کا جو دم بھرتے ہیں

ایک مدت وہ ابھی بیعت پروانہ کریں

الجھا ہی رہنے دو زلفوں کو صنم

جو نہ کھل جائیں بھرم اچھے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے