Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fariha Naqvi's Photo'

نئی نسل کی پاکستانی شاعرات میں نمایاں

نئی نسل کی پاکستانی شاعرات میں نمایاں

فریحہ نقوی کے اشعار

3.2K
Favorite

باعتبار

ہم تحفے میں گھڑیاں تو دے دیتے ہیں

اک دوجے کو وقت نہیں دے پاتے ہیں

زمانے اب ترے مد مقابل

کوئی کمزور سی عورت نہیں ہے

تمہیں پتا ہے مرے ہاتھ کی لکیروں میں

تمہارے نام کے سارے حروف بنتے ہیں

دے رہے ہیں لوگ میرے دل پہ دستک بار بار

دل مگر یہ کہہ رہا ہے صرف تو اور صرف تو

تمہارے رنگ پھیکے پڑ گئے ناں؟

مری آنکھوں کی ویرانی کے آگے

عین ممکن ہے اسے مجھ سے محبت ہی نہ ہو

دل بہر طور اسے اپنا بنانا چاہے

تمہیں پانے کی حیثیت نہیں ہے

مگر کھونے کی بھی ہمت نہیں ہے

رات سے ایک سوچ میں گم ہوں

کس بہانے تجھے کہوں آ جا

تم مری وحشتوں کے ساتھی تھے

کوئی آسان تھا تمہیں کھونا؟

وہ خدا ہے تو بھلا اس سے شکایت کیسی؟

مقتدر ہے وہ ستم مجھ پہ جو ڈھانا چاہے

اس کی جانب سے بڑھا ایک قدم

میرے سو سال بڑھا دیتا ہے

ہم آج قوس قزح کے مانند ایک دوجے پہ کھل رہے ہیں

مجھے تو پہلے سے لگ رہا تھا یہ آسمانوں کا سلسلہ ہے

ہتھیلی سے ٹھنڈا دھواں اٹھ رہا ہے

یہی خواب ہر مرتبہ دیکھتی ہوں

لڑکھڑانا نہیں مجھے پھر بھی

تم مرا ہاتھ تھام کر رکھنا

مرے ہجر کے فیصلے سے ڈرو تم

میں خود میں عجب حوصلہ دیکھتی ہوں

بھلا میں زخم کھول کر دکھاؤں کیوں

اداس ہوں تو ہوں تمہیں بتاؤں کیوں

وہ ترے شہر میں آتے ہی دھڑکنا دل کا

ہر گلی یار مرے تیری گلی ہو جیسے

ہم اداسی کے اس دبستاں کا

آخری مستند حوالہ ہیں

اے مجھے پھول بھیجنے والے

تو مری عادتیں بگاڑے گا

بھلی کیوں لگے ہم کو خوشیوں کی دستک

ابھی ہم محبت کا غم کر رہے ہیں

سوئی ہوئی تڑپ کو پھر سے جگا رہا ہے

کہتا تو کچھ نہیں ہے بس یاد آ رہا ہے

کھل کر آخر جہل کا اعلان ہونا چاہئے

حق پرستوں کے لئے زندان ہونا چاہئے

سن مرے خواب میں آنے والے

تجھ سے جلتے ہیں زمانے والے

کس کس پھول کی شادابی کو مسخ کرو گے بولو!!!

یہ تو اس کی دین ہے جس کو چاہے وہ مہکائے

اندر ایسا حبس تھا میں نے کھول دیا دروازہ

جس نے دل سے جانا ہے وہ خاموشی سے جائے

دیکھ میں یاد کر رہی ہوں تجھے

پھر میں یہ بھی نہ کر سکوں آ جا

آپ جیسوں کو رعایا جھیلتی ہے کس طرح

آپ کو تو سوچ کر حیران ہونا چاہیے

آنکھ اور بادل دونوں ٹوٹ کے روتے ہیں

جانے ان کا آپس میں کیا رشتہ ہے

شام ہوئی تو گھر کی ہر اک شے پر آ کر جھپٹے

آنگن کی دہلیز پہ بیٹھے ویرانی کے سائے

دل میں سوئے سارے درد جگاتا ہے

بن موسم کی بارش ایسا نوحہ ہے

مرا دل جل رہا ہے روشنی سے

زمانہ فیض پاتا جا رہا ہے

مرے اشکوں کی لے کر روشنائی

زمانہ شعر لکھتا جا رہا تھا

Recitation

بولیے