Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Khaleel Tanveer's Photo'

خلیل تنویر

1944

خلیل تنویر کے اشعار

10.1K
Favorite

باعتبار

اوروں کی برائی کو نہ دیکھوں وہ نظر دے

ہاں اپنی برائی کو پرکھنے کا ہنر دے

رسوا ہوئے ذلیل ہوئے در بدر ہوئے

حق بات لب پہ آئی تو ہم بے ہنر ہوئے

وہ لوگ اپنے آپ میں کتنے عظیم تھے

جو اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کر سکے

پرند شاخ پہ تنہا اداس بیٹھا ہے

اڑان بھول گیا مدتوں کی بندش میں

تیری آمد کی منتظر آنکھیں

بجھ گئیں خاک ہو گئے رستے

اس بھرے شہر میں دن رات ٹھہرتے ہی نہیں

کون یادوں کے سفر نامے کو تحریر کرے

حادثوں کی مار سے ٹوٹے مگر زندہ رہے

زندگی جو زخم بھی تو نے دیا گہرا نہ تھا

اب کے سفر میں درد کے پہلو عجیب ہیں

جو لوگ ہم خیال نہ تھے ہم سفر ہوئے

پرند اونچی اڑانوں کی دھن میں رہتا ہے

مگر زمیں کی حدوں میں بسر بھی کرتا ہے

بہت عزیز تھے اس کو سفر کے ہنگامے

وہ سب کے ساتھ چلا تھا مگر اکیلا تھا

جو زخم دیتا ہے تو بے اثر ہی دیتا ہے

خلش وہ دے کہ جسے بھول بھی نہ پاؤں میں

وہ لوگ جن کی زمانہ ہنسی اڑاتا ہے

اک عمر بعد انہیں معتبر بھی کرتا ہے

تو مجھ کو بھولنا چاہے تو بھول سکتا ہے

میں ایک حرف تمنا تری کتاب میں ہوں

دور تک ایک سیاہی کا بھنور آئے گا

خود میں اترو گے تو ایسا بھی سفر آئے گا

عجیب شخص تھا اس کو سمجھنا مشکل ہے

کنارے آب کھڑا تھا مگر وہ پیاسا تھا

میں کیا ہوں کون ہوں کیا چیز مجھ میں مضمر ہے

کئی حجاب اٹھائے مگر حجاب میں ہوں

تری نگاہ تو خوش منظری پہ رہتی ہے

تیری پسند کے منظر کہاں سے لاؤں میں

گھر میں کیا غم کے سوا تھا جو بہا لے جاتا

میری ویرانی پہ ہنستا رہا دریا اس کا

لوح جہاں پہ اس طرح لکھا گیا ہوں میں

جس کا کوئی جواب نہیں وہ سوال ہوں

حرف کو برگ نوا دیتا ہوں

یوں مرے پاس ہنر کچھ بھی نہیں

اپنا لہو یتیم تھا کوئی نہ رنگ لا سکا

منصف سبھی خموش تھے عذر جفا کے سامنے

حدود دل سے جو گزرا وہ جان لیوا تھا

یوں زلزلے تو کئی اس جہان میں آئے

زمانہ لاکھ ستاروں کو چھو کے آ جائے

ابھی دلوں کو مگر حاجت رفو ہے وہی

ذرا سی ٹھیس لگی تھی کہ چور چور ہوا

ترے خیال کا پیکر بھی آبگینہ تھا

وہ شہر چھوڑ کے مدت ہوئی چلا بھی گیا

حد افق پہ مگر چاند روبرو ہے وہی

جن کو زمین دیدۂ دل سے عزیز تھی

وہ کم نگاہ لوگ تھے ہجرت نہ کر سکے

شب کی دیوار گری تو دیکھا

نوک نشتر ہے سحر کچھ بھی نہیں

تمام درد کے رشتوں سے واسطہ نہ رہے

حصار جسم سے نکلوں تو بے صدا ہو جاؤں

رواں تھی کوئی طلب سی لہو کے دریا میں

کہ موج موج بھنور عمر کا سفینہ تھا

حدود شہر سے باہر بھی بستیاں پھیلیں

سمٹ کے رہ گئے یوں جنگلوں کے گھیرے بھی

کسے خیال تھا مٹتی ہوئی عبارت کا

مہک رہا تھا چمن در چمن سماعت کا

کیا بستیاں تھیں جن کو ہوا نے مٹا دیا

ہر نقش بے نوا در و دیوار دیکھیے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے