محمد مستحسن جامی کے اشعار
رنگ بدلا ہوا تھا پھولوں کا
تم یقیناً اداس گزرے تھے
غربت کا احسان تھا ہم پر
اک تھالی میں کھا سکتے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لکھ کے رکھ دیتا ہوں الفاظ سبھی کاغذ پر
لفظ خود بول کے تاثیر بنا لیتے ہیں
دستک دینے والے تجھ کو علم نہیں
دروازے کے دونوں جانب تالا ہے
اک کرب کا موسم ہے جو دائم ہے ابھی تک
اک ہجر کا قصہ کہ مکمل نہیں ہوتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لفظ اور آواز دونوں کھو گئے
مجھ سے حق چھینا گیا ہے بات کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بدلے ہیں زمانے نے خد و خال ترے بھی
اب تجھ کو کوئی دیکھ کے پاگل نہیں ہوتا
میری خواہش ہے کہ جی بھر کے اسے دیکھ تو لوں
ہجر کے ممکنہ صدمات سے پہلے پہلے
مجھ جیسے درویش تمہاری دنیا میں
مرنے کی خواہش میں زندہ رہتے ہیں
معلوم نہیں کون سی بستی کے مکیں تھے
کچھ لوگ مری سوچ سے بھی بڑھ کے حسیں تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جو جان چھڑکتے تھے وہی کہتے ہیں مجھ سے
تو حلقۂ احباب میں شامل ہی کہاں تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یخ بستہ شب گزار کبھی تو بھی ہجر میں
میری طرح کسی سے مودت تجھے بھی ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دوسرے شخص کیا کہوں تجھ کو
ایک ہونے نہیں دیا تو نے
مجھے خبر ہے کیا کچھ ہے بنیادوں میں
تیری بستی کا پہلا مزدور تھا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہم تلوار اٹھا نہیں پائے
ہم آواز اٹھا سکتے تھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نیلی چھت پہ لا محدود پرندے تھے
آج کسی نے اشک بہا کر رقص کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ان چراغوں کا کیا بگاڑا تھا؟
کیوں جھگڑتی ہے روشنی مجھ سے
اب ترے ہجر میں اک پل نہ گزارا جائے
یہ نہ ہو قیس ترا دشت میں مارا جائے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سر اپنا اٹھا سکتا نہیں کوئی بھی ابلیس
مل جائے اگر فقر کی تلوار مجھے بھی
وہ جلوۂ صد رنگ میں اک ڈھنگ سے نکلا
جو مصرعہ ترے سینہ و آہنگ سے نکلا
کیا خبر تھی کہ مجھے اس نے جکڑ لینا ہے
میں اداسی پہ بہت طنز کیا کرتا تھا
سفر میں ماں کی دعاؤں سے چھت بناتا ہوں
اگر کبھی نہ میسر ہو سائبان مجھے
تو سامنے آ گیا تو کیا حال ہوگا ان کا
ترے تصور نے جن کو سرشار کر دیا ہے
دنیا کے قافلے میں روانہ ہیں اس لئے
ہم بھی منافقین کی پہچان کر سکیں
دیکھ کر اس کو سب خواہشیں مٹ گئیں
کچھ بچا ہی نہیں دیکھنے کے لئے
تجھ کو تو ملا وہ بھی جو مانگا نہیں تو نے
تو نے تو کبھی خون تمنا نہیں دیکھا
فراغتوں میں فقط ایک کام کرتا ہوں
میں روشنی سے مسلسل کلام کرتا ہوں
سوائے اس کے کوئی بھی مصروفیت نہیں ہے
میں ان دنوں بس چراغ تقسیم کر رہا ہوں
یہ بستیاں ہیں اندھیر نگری میں رہنے والی
یہ لوگ وہ ہیں جو روشنی سے ڈرے ہوئے ہیں
تری لب کشائی پہ منحصر مری زندگانی ہے دوستا
ترا بولنا بھی قبول ہے تری خامشی بھی عزیز ہے
اس واسطے میں ہار گیا تیری طرف سے
ناکام پلٹ آئے تھے سب تیر ہدف سے
آپ ہمدردی نہ یوں جتلائیے
یہ مرا معمول کا نقصان ہے
میں اسے یکسوئی سے پڑھ ہی نہیں پایا کبھی
زندگی کے لفظ میں کتنے جہاں آباد تھے
یہ لوگ اپنے عدو کو بھی فیض دیتے ہیں
قلندروں کی جہاں میں یہی طریقت ہے
تجھے میں دیتا ہوں مولا کا واسطہ دنیا
مرے وجود سے رکھ فاصلہ زمانوں کا
جہاں پہ باطنی خوشیاں نصیب ہوتی ہیں
وہ در جہاں میں کسی بھی ولی کا ہوتا ہے
یہ اپنی کیفیت کا بتاتے نہیں کبھی
مولا تمام ہجر کے ماروں کی خیر ہو
ابتدا کا علم ہے نہ انتہا معلوم ہے
وہ مسافر ہوں جسے نام خدا معلوم ہے
یقین کیجیے سب انتشار ختم ہوئے
جب اپنے آپ کو تسخیر کر لیا میں نے
مر جائیں تو رہ جاتے ہیں ہم لوگ اکیلے
سوئم میں ہمارے کوئی شامل نہیں ہوتا
عجب شباہت عجب بدن میں کدورتیں ہیں
سمجھ سے یکسر جدا یہ مٹی کی مورتیں ہیں
جنوں کے عالم میں رقص کرنے کو آ گئے ہیں
بحال ہونے لگی ہے رونق تری گلی کی
زاد سفر میں رکھے گئے تھے کئی چراغ
عجلت میں ان سے کام کسی نے نہیں لیا
جامیؔ میں تصور میں وہاں پہنچا ہوا ہوں
ہاں مجھ کو مرے شاہ نجف دیکھ رہے ہیں
گزارتا ہوں اسے جس طرح سے مستحسنؔ
یہ زندگی مجھے ترتیب میں نہیں لگتی
ایسے لگتا ہے بدن کاٹ رہی ہے میرا
جس اذیت کا ابھی نام نہیں ہے کوئی
کوئی نہ کوئی کسک دل میں رہ ہی جاتی ہے
وہ اختلاف بھی پوری طرح نہیں کرتا
ادراک ترے حسن کی تصویر گری کا
یوں لگتا ہے جیسے کوئی برسوں کا سفر ہے
میری نظر میں وہ کوئی محبوب ہی نہیں
اپنے پرائے شخص کی جس کو خبر نہ ہو
مری تمناؤں کا سفر کس قدر حسیں ہے
کبھی میسر ہے تیرا شانہ کبھی جبیں ہے