Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

پروین ام مشتاق

1866 | دلی, انڈیا

کلاسیکی دور کے نمایاں شعراء میں سے ایک

کلاسیکی دور کے نمایاں شعراء میں سے ایک

پروین ام مشتاق کے اشعار

904
Favorite

باعتبار

آب دیدہ ہو کے وہ آپس میں کہنا الوداع

اس کی کم میری سوا آواز بھرائی ہوئی

زاہد سنبھل غرور خدا کو نہیں پسند

فرش زمیں پہ پاؤں دماغ آسمان پر

مخلوق کو تمہاری محبت میں اے بتو

ایمان کا خیال نہ اسلام کا لحاظ

وہ ہی آسان کرے گا مری دشواری کو

جس نے دشوار کیا ہے مری آسانی کو

گر آپ پہلے رشتۂ الفت نہ توڑتے

مر مٹ کے ہم بھی خیر نبھاتے کسی طرح

نکلے ہیں گھر سے دیکھنے کو لوگ ماہ عید

اور دیکھتے ہیں ابروئے خم دار کی طرف

کیوں اجاڑا زاہدو بتخانۂ آباد کو

مسجدیں کافی نہ ہوتیں کیا خدا کی یاد کو

بھیج تو دی ہے غزل دیکھیے خوش ہوں کہ نہ ہوں

کچھ کھٹکتے ہوئے الفاظ نظر آتے ہیں

نہ آیا کر کے وعدہ وصل کا اقرار تھا کیا تھا

کسی کے بس میں تھا مجبور تھا لاچار تھا کیا تھا

جنوں ہوتا ہے چھا جاتی ہے حیرت

کمال عقل اک دیوانہ پن ہے

دیکھنے والے یہ کہتے ہیں کتاب دہر میں

تو سراپا حسن کا نقشہ ہے میں تصویر عشق

فرق کیا مقتل میں اور گلزار میں

ڈھال میں ہیں پھول پھل تلوار میں

بال رخساروں سے جب اس نے ہٹائے تو کھلا

دو فرنگی سیر کو نکلے ہیں ملک شام سے

مری قسمت لکھی جاتی تھی جس دن میں اگر ہوتا

اڑا ہی لیتا دست کاتب تقدیر سے کاغذ

ٹھہر جاؤ بوسے لینے دو نہ توڑو سلسلہ

ایک کو کیا واسطہ ہے دوسرے کے کام سے

اک ادنیٰ سا پردہ ہے اک ادنیٰ سا تفاوت

مخلوق میں معبود میں بندہ میں خدا میں

واعظ کو لعن طعن کی فرصت ہے کس طرح

پوری ابھی خدا کی طرف لو لگی نہیں

بد قسمتوں کو گر ہو میسر شب وصال

سورج غروب ہوتے ہی ظاہر ہو نور صبح

کسی کے سنگ در سے ایک مدت سر نہیں اٹھا

محبت میں ادا کی ہیں نمازیں بے وضو برسوں

مدت سے اشتیاق ہے بوس و کنار کا

گر حکم ہو شروع کرے اپنا کام حرص

ہوتی نہ شریعت میں پرستش کبھی ممنوع

گر پہلے بھی بت خانوں میں ہوتے صنم ایسے

اہل دنیا باؤلے ہیں باؤلوں کی تو نہ سن

نیند اڑاتا ہو جو افسانہ اس افسانہ سے بھاگ

ہوا میں جب اڑا پردہ تو اک بجلی سی کوندی تھی

خدا جانے تمہارا پرتو رخسار تھا کیا تھا

کچھ تو کمی ہو روز جزا کے عذاب میں

اب سے پیا کریں گے ملا کر گلاب میں

کس طرح کر دیا دل نازک کو چور چور

اس واقعہ کی خاک ہے پتھر کو اطلاع

دلوایئے بوسہ دھیان بھی ہے

اس قرضۂ واجب الادا کا

اے صبا چلتی ہے کیوں اس درجہ اترائی ہوئی

اڑ گئی کافور بن بن کر حیا آئی ہوئی

مجھے جب مار ہی ڈالا تو اب دونوں برابر ہیں

اڑاؤ خاک صرصر بن کے یا باد صبا بن کر

سنتے سنتے واعظوں سے ہجو مے

ضعف سا کچھ آ گیا ایمان میں

دیئے جائیں گے کب تک شیخ صاحب کفر کے فتوے

رہیں گی ان کے صندوقچہ میں دیں کی کنجیاں کب تک

اسی دن سے مجھے دونوں کی بربادی کا خطرہ تھا

مکمل ہو چکے تھے جس گھڑی ارض و سما بن کر

چبھیں گے زیرہ ہائے شیشۂ دل دست نازک میں

سنبھل کر ہاتھ ڈالا کیجیے میرے گریباں پر

مر چکا میں تو نہیں اس سے مجھے کچھ حاصل

برسے گر پانی کی جا آب بقا میرے بعد

کبھی نہ جائے گا عاشق سے دیکھ بھال کا روگ

پلاؤ لاکھ اسے بد مزہ دوائے فراق

اگر لوہے کے گنبد میں رکھیں گے اقربا ان کو

وہیں پہنچائے گا عاشق کسی تدبیر سے کاغذ

جاں گھل چکی ہے غم میں اک تن ہے وہ بھی مہمل

معنی نہیں ہیں بالکل مجھ میں اگر بیاں ہوں

پی بادۂ احمر تو یہ کہنے لگا گل رو

میں سرخ ہوں تم سرخ زمیں سرخ زماں سرخ

پوچھ لے پرویںؔ سے یا قیس سے دریافت کر

شہر میں مشہور ہے تیرے فدائی کا عشق

پو پھٹتے ہی ریاضؔ جہاں خلد بن گیا

غلمان مہر ساتھ لئے آئی حور صبح

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے