Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

رند لکھنوی

1797 - 1857 | لکھنؤ, انڈیا

رند لکھنوی کے اشعار

4.1K
Favorite

باعتبار

آ عندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

ٹوٹے بت مسجد بنی مسمار بت خانہ ہوا

جب تو اک صورت بھی تھی اب صاف ویرانہ ہوا

چاندنی راتوں میں چلاتا پھرا

چاند سی جس نے وہ صورت دیکھ لی

دید لیلیٰ کے لیے دیدۂ مجنوں ہے ضرور

میری آنکھوں سے کوئی دیکھے تماشا تیرا

کعبے کو جاتا کس لیے ہندوستاں سے میں

کس بت میں شہر ہند کے شان خدا نہ تھی

اپنے مرنے کا اگر رنج مجھے ہے تو یہ ہے

کون اٹھائے گا تری جور و جفا میرے بعد

موت آ جائے قید میں صیاد

آرزو ہو اگر رہائی کی

پھر وہی کنج قفس ہے وہی صیاد کا گھر

چار دن اور ہوا باغ کی کھا لے بلبل

راستہ روک کے کہہ لوں گا جو کہنا ہے مجھے

کیا ملوگے نہ کبھی راہ میں آتے جاتے

ہم جو کہتے ہیں سراسر ہے غلط

سب بجا آپ جو فرمائیے گا

مے پلا ایسی کہ ساقی نہ رہے ہوش مجھے

ایک ساغر سے دو عالم ہوں فراموش مجھے

مے کش ہوں وہ کہ پوچھتا ہوں اٹھ کے حشر میں

کیوں جی شراب کی ہیں دکانیں یہاں کہیں

طبیعت کو ہوگا قلق چند روز

ٹھہرتے ٹھہرتے ٹھہر جائے گی

شوق نظارہ دیدار میں تیرے ہمدم

جان آنکھوں میں مری جان رہا کرتی ہے

لائے گی گردش میں تجھ کو بھی مری آوارگی

کو بہ کو میں ہوں تو تو بھی در بدر ہو جائے گا

کسی کا کوئی مر جائے ہمارے گھر میں ماتم ہے

غرض بارہ مہینے تیس دن ہم کو محرم ہے

آنکھ سے قتل کرے لب سے جلائے مردے

شعبدہ باز کا ادنیٰ سا کرشمہ دیکھو

اے پری حسن ترا رونق ہندوستاں ہے

حسن یوسف ہے فقط مصر کے بازار کا روپ

ناز بے جا اٹھائیے کس سے

اب نہ وہ دل نہ وہ دماغ رہا

رتبۂ کفر ہے کس بات میں کم ایماں سے

شوکت کعبہ تو ہے شان کلیسا دیکھو

حور پر آنکھ نہ ڈالے کبھی شیدا تیرا

سب سے بیگانہ ہے اے دوست شناسا تیرا

عالم پسند ہو گئی جو بات تم نے کی

جو چال تم چلے وہ زمانے میں چل گئی

زلفوں کی طرح عمر بسر ہو گئی اپنی

ہم خانہ بدوشوں کو کہیں گھر نہیں ملتا

اے شب فرقت نہ کر مجھ پر عذاب

میں نے تیرا منہ نہیں کالا کیا

قیس سمجھا مری لیلیٰ کی سواری آئی

دور سے جب کوئی صحرا میں بگولا اٹھا

پروں کو کھول دے ظالم جو بند کرتا ہے

قفس کو لے کے میں اڑ جاؤں گا کہاں صیاد

برہنہ دیکھ کر عاشق میں جان تازہ آتی ہے

سراپا روح کا عالم ہے تیرے جسم عریاں میں

تھا مقدم عشق بت اسلام پر طفلی میں بھی

یا صنم کہہ کر پڑھا مکتب میں بسم اللہ کو

اگری کا ہے گماں شک ہے ملا گیری کا

رنگ لایا ہے دوپٹہ ترا میلا ہو کر

لیلیٰ مجنوں کا رٹتی ہے نام

دیوانی ہوئی ہے بک رہی ہے

کریم جو مجھے دیتا ہے بانٹ کھاتا ہوں

مرے طریق میں تنہا خوری حلال نہیں

پاس دیں کفر میں بھی تھا ملحوظ

بت کو پوجا خدا خدا کر کے

ہوں وہ کافر کہ مسلمانوں نے اکثر مجھ کو

پھونکتے کعبے میں ناقوس کلیسا دیکھا

اے جنوں تو ہی چھڑائے تو چھٹوں اس قید سے

طوق گردن بن گئی ہے میری دانائی مجھے

کافر ہوں نہ پھونکوں جو ترے کعبے میں اے شیخ

ناقوس بغل میں ہے مصلیٰ نہ سمجھنا

کھلی ہے کنج قفس میں مری زباں صیاد

میں ماجرائے چمن کیا کروں بیاں صیاد

عشق کچھ آپ پہ موقوف نہیں خوش رہئے

ایک سے ایک زمانے میں طرحدار بہت

ہجر کی شب ہاتھ میں لے کر چراغ ماہتاب

ڈھونڈھتا پھرتا ہوں گردوں پر سحر ملتی نہیں

دیوانوں سے کہہ دو کہ چلی باد بہاری

کیا اب کے برس چاک گریباں نہ کریں گے

اداس دیکھ کے مجھ کو چمن دکھاتا ہے

کئی برس میں ہوا ہے مزاج داں صیاد

رندان عشق چھٹ گئے مذہب کی قید سے

گھنٹہ رہا گلے میں نہ زنار رہ گیا

بچے گا نہ کاوش سے مژگاں کی دل

کہ نشتر بہت آبلہ ایک ہے

خاک چھنواتی ہے دیوانوں سے اپنے مدتوں

وہ پری جب تک نہ کر لے در بدر ملتی نہیں

امسال فصل گل میں وہ پھر چاک ہو گئے

اگلے برس کے تھے جو گریباں سیے ہوئے

پھیر لاتا ہے خط شوق مرا ہو کے تباہ

ذبح کر ڈالوں گا اب کی جو کبوتر بہکا

مژدہ باد اے بادہ خوارو دور واعظ ہو چکا

مدرسے کھودے گئے تعمیر مے خانہ ہوا

لالہ رویوں سے کب فراغ رہا

اک نہ اک گل کا دل پہ داغ رہا

منزل عشق کی ہے رہ ہموار

نہ بلندی ہے یاں نہ پستی ہے

مزا پڑا ہے قناعت کا عہد طفلی سے

میں سیر ہو کے نہ پیتا تھا شیر مادر کو

کیا سن چکے ہیں آمد فصل بہار ہاتھ

جاتے ہیں سوئے جیب جو بے اختیار ہاتھ

Recitation

بولیے