Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sada Ambalvi's Photo'

صدا انبالوی

1951 | گڑگاؤں, انڈیا

راجندر سنگھ۔ مقبول شاعر، اپنی غزل ’ وہ تو خوشبوہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے‘ کے لئے مشہور، جسے گایا گیا ہے

راجندر سنگھ۔ مقبول شاعر، اپنی غزل ’ وہ تو خوشبوہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے‘ کے لئے مشہور، جسے گایا گیا ہے

صدا انبالوی کے اشعار

5.2K
Favorite

باعتبار

وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں بن سکتا

درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے

بڑا گھاٹے کا سودا ہے صداؔ یہ سانس لینا بھی

بڑھے ہے عمر جیوں جیوں زندگی کم ہوتی جاتی ہے

بجھ گئی شمع کی لو تیرے دوپٹے سے تو کیا

اپنی مسکان سے محفل کو منور کر دے

اپنی اردو تو محبت کی زباں تھی پیارے

اف سیاست نے اسے جوڑ دیا مذہب سے

کیوں سدا پہنے وہ تیرا ہی پسندیدہ لباس

کچھ تو موسم کے مطابق بھی سنورنا ہے اسے

اب کہاں دوست ملیں ساتھ نبھانے والے

سب نے سیکھے ہیں اب آداب زمانے والے

ذکر میرا آئے گا محفل میں جب جب دوستو

رو پڑیں گے یاد کر کے یار سب یاری مری

محبت کے مریضوں کا مداوا ہے ذرا مشکل

اترتا ہے صداؔ ان کا بخار آہستہ آہستہ

بڑے باوفا تھے مرے یار سب

مصیبت میں جب تک پکارا نہ تھا

دے گیا خوب سزا مجھ کو کوئی کر کے معاف

سر جھکا ایسے کہ تا عمر اٹھایا نہ گیا

دل جلاؤ یا دیئے آنکھوں کے دروازے پر

وقت سے پہلے تو آتے نہیں آنے والے

وقت کے ساتھ صداؔ بدلے تعلق کتنے

تب گلے ملتے تھے اب ہاتھ ملایا نہ گیا

تم ستاروں کے بھروسے پہ نہ بیٹھے رہنا

اپنی تدبیر سے تقدیر بناتے جاؤ

رسم دنیا تو کسی طور نبھاتے جاؤ

دل نہیں ملتے بھی تو ہاتھ ملاتے جاؤ

دل کو سمجھا لیں ابھی سے تو مناسب ہوگا

اک نہ اک روز تو وعدے سے مکرنا ہے اسے

بھلے ہی لاکھ حوالوں کے ساتھ کہتے ہیں

مگر وہ صرف کتابوں کی بات کہتے ہیں

اجالا علم کا پھیلا تو ہے چاروں طرف یارو

بصیرت آدمی کی کچھ مگر کم ہوتی جاتی ہے

اک نہ اک روز رفاقت میں بدل جائے گی

دشمنی کو بھی سلیقے سے نبھاتے جاؤ

چلو کہ ہم بھی زمانے کے ساتھ چلتے ہیں

نہیں بدلتا زمانہ تو ہم بدلتے ہیں

وہ تو خوشبو ہے ہر اک سمت بکھرنا ہے اسے

دل کو کیوں ضد ہے کہ آغوش میں بھرنا ہے اسے

صداؔ کے پاس ہے دنیا کا تجربہ واعظ

تمہاری بات میں بس فلسفہ کتاب کا ہے

چوم لوں میں ورق ورق اس کا

تیرے چہرے سے جو کتاب ملے

نہ ذکر گل کا کہیں ہے نہ ماہتاب کا ہے

تمام شہر میں چرچا ترے شباب کا ہے

موت کی گود میں جب تک نہیں تو سو جاتا

تو صداؔ چین سے ہرگز نہیں سونے والا

کون آئے گا بھول کر رستہ

دل کو کیوں ضد ہے گھر سجانے کی

ہمیں نہ راس زمانے کی محفلیں آئی

چلو کہ چھوڑ کے اب اس جہاں کو چلتے ہیں

انہیں نہ تولیے تہذیب کے ترازو میں

گھروں میں ان کے نہ چولھے نہ دیپ جلتے ہیں

چمن میں خشک سالی پر ہے خوش صیاد کہ اب خود

پرندے پیٹ کی خاطر اسیر دام ہوتے ہیں

لوگ کہتے ہیں دل لگانا جسے

روگ وہ بھی لگا کے دیکھ لیا

جنہیں ہم بلبلا پانی کا دکھتے ہیں کہو ان سے

نظر ہو دیکھنے والی تو بحر بے کراں ہم ہیں

مر مر کے جئیں کس لیے بندے ترے مولیٰ

جینا بھی ذرا موت سا آسان بنا دے

اشک آنکھوں سے مری نکلے مسلسل لیکن

اس نے اک حرف تسلی نہ نکالا لب سے

ڈھونڈ افلاک نئے اور زمینیں بھی نئی

ہو غزل کا تری ہر شعر نیا حرف بہ حرف

چھین لینا یا خدا مجھ سے مرے لوح و قلم

گر زوال آئے مرے اشعار کے معیار میں

اپنی آنکھوں کی بد نصیبی ہائے

اک نہ اک روز حادثہ دیکھا

کتنا سوچا تھا دل لگائیں گے

سوچتے سوچتے حیات ہوئی

شعر میں ساتھ روانی کے معانی بھی تو بھر

اے صداؔ قید تو کوزے میں سمندر کر دے

Recitation

بولیے