آب دیدہ شاعری
میں رونا چاہتا ہوں خوب رونا چاہتا ہوں میں
پھر اس کے بعد گہری نیند سونا چاہتا ہوں میں
-
موضوعات : آنسواور 3 مزید
اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں
دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے
طوفاں اٹھا رہا ہے مرے دل میں سیل اشک
وہ دن خدا نہ لائے جو میں آب دیدہ ہوں
وقت رخصت آب دیدہ آپ کیوں ہیں
جسم سے تو جاں ہماری جا رہی ہے
اداسی کھینچ لائی ہے یہاں تک
میں آنسو تھا سمندر میں پڑا ہوں
ایسی کیا بیت گئی مجھ پہ کہ جس کے باعث
آب دیدہ ہیں مرے ہنسنے ہنسانے والے
کیوں کھلونے ٹوٹنے پر آب دیدہ ہو گئے
اب تمہیں ہم کیا بتائیں کیا پریشانی ہوئی
جھلملاتے رہے وہ خواب جو پورے نہ ہوئے
درد بیدار ٹپکتا رہا آنسو آنسو
واں سجدۂ نیاز کی مٹی خراب ہے
جب تک کہ آب دیدہ سے تازہ وضو نہ ہو
ان کی یاد میں بہتے آنسو خشک اگر ہو جائیں گے
سات سمندر اپنی خالی آنکھوں میں بھر لاؤں گا
ہم تیری طبیعت کو خورشیدؔ نہیں سمجھے
پتھر نظر آتا تھا رویا تو بہت رویا
وہاں اب خواب گاہیں بن گئی ہیں
اٹھے تھے آب دیدہ ہم جہاں سے
آب دیدہ ہوں میں خود زخم جگر سے اپنے
تیری آنکھوں میں چھپا درد کہاں سے دیکھوں
کپڑے گلے کے میرے نہ ہوں آب دیدہ کیوں
مانند ابر دیدۂ تر اب تو چھا گیا
یہ آب دیدہ ٹھہر جائے جھیل کی صورت
کہ ایک چاند کا ٹکڑا نہانا چاہتا ہے
طوفان جہل نے مرا جوہر مٹا دیا
میں اک کتاب خوب ہوں پر آب دیدہ ہوں
کون اٹھ گیا ہے پاس سے میرے جو مصحفیؔ
روتا ہوں زار زار پڑا آب دیدہ ہوں
ہم عشق تیرے ہاتھ سے کیا کیا نہ دیکھیں حالتیں
دیکھ آب دیدہ خوں نہ ہو خون جگر پانی نہ کر
رونے تلک تو کس کو ہے فرصت یہاں سحاب
طوفاں ہوا بھی جو ٹک اک آب دیدہ ہوں
رونا ہے اگر یہی تو قائمؔ
اک خلق کو ہم ڈبا رہے ہیں
سیلاب چشم تر سے زمانہ خراب ہے
شکوے کہاں کہاں ہیں مرے آب دیدہ کے
اے ساکنان چرخ معلی بچو بچو
طوفاں ہوا بلند مرے آب دیدہ کا