گرمی پر اشعار
شاعری میں کوئی لفظ کسی
ایک خاص تصورسےبندھ کرنہیں رہتا۔ ہرتخلیقی ذہن اپنے لفظوں اوراپنے اظہاری وسیلوں کا ایک الگ تناظراورسیاق رکھتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ دھوپ اوردوپہرکے لفظ کتنے متنوع معنویاتی زاویے رکھتے ہیں۔ یہ زندگی کی سختی اورشدت کی علامت بھی ہیں اوراس کےبرعکس بھی۔
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے
وہ ترا کوٹھے پہ ننگے پاؤں آنا یاد ہے
-
موضوع : دھوپ
گرمی لگی تو خود سے الگ ہو کے سو گئے
سردی لگی تو خود کو دوبارہ پہن لیا
-
موضوع : سردی
شہر کیا دیکھیں کہ ہر منظر میں جالے پڑ گئے
ایسی گرمی ہے کہ پیلے پھول کالے پڑ گئے
یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا
-
موضوع : آئینہ
یہ دھوپ تو ہر رخ سے پریشاں کرے گی
کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ
شدید گرمی میں کیسے نکلے وہ پھول چہرہ
سو اپنے رستے میں دھوپ دیوار ہو رہی ہے
پھر وہی لمبی دوپہریں ہیں پھر وہی دل کی حالت ہے
باہر کتنا سناٹا ہے اندر کتنی وحشت ہے
-
موضوعات : دل لگیاور 1 مزید
آتے ہی جو تم میرے گلے لگ گئے واللہ
اس وقت تو اس گرمی نے سب مات کی گرمی
پڑ جائیں مرے جسم پہ لاکھ آبلہ اکبرؔ
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
بند آنکھیں کروں اور خواب تمہارے دیکھوں
تپتی گرمی میں بھی وادی کے نظارے دیکھوں
سورج سر پہ آ پہنچا
گرمی ہے یا روز جزا
سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
-
موضوع : دھوپ
تو جون کی گرمی سے نہ گھبرا کہ جہاں میں
یہ لو تو ہمیشہ نہ رہی ہے نہ رہے گی
دھوپ کی گرمی سے اینٹیں پک گئیں پھل پک گئے
اک ہمارا جسم تھا اختر جو کچا رہ گیا
گرمی بہت ہے آج کھلا رکھ مکان کو
اس کی گلی سے رات کو پروائی آئے گی
گرمی نے کچھ آگ اور بھی سینہ میں لگائی
ہر طور غرض آپ سے ملنا ہی کم اچھا
کیوں تری تھوڑی سی گرمی سیں پگھل جاوے ہے جاں
کیا تو نیں سمجھا ہے عاشق اس قدر ہے موم کا
گرمی سی یہ گرمی ہے
مانگ رہے ہیں لوگ پناہ
گرمیوں بھر مرے کمرے میں پڑا رہتا ہے
دیکھ کر رخ مجھے سورج کا یہ گھر لینا تھا
پگھلتے دیکھ کے سورج کی گرمی
ابھی معصوم کرنیں رو گئی ہیں
تعلقات کی گرمی نہ اعتبار کی دھوپ
جھلس رہی ہے زمانے کو انتشار کی دھوپ
گرمی جو آئی گھر کا ہوا دان کھل گیا
ساحل پہ جب گیا تو ہر انسان کھل گیا
گرمی میں تیرے کوچہ نشینوں کے واسطے
پنکھے ہیں قدسیوں کے پروں کے بہشت میں
قیامت میں بڑی گرمی پڑے گی حضرت زاہد
یہیں سے بادۂ گل رنگ میں دامن کو تر کر لو
ستم گرمیٔ صحرا مجھے معلوم نہ تھا
خشک ہو جائے گا دریا مجھے معلوم نہ تھا