میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو
سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آ گئی
وہ اک دیا بجھا تو سینکڑوں دئیے جلا گیا
بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں
عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی
-
موضوع : دعا
پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون
دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون
سانس لیتا ہوں تو روتا ہے کوئی سینے میں
دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی صدا آتی ہے
تا قیامت ذکر سے روشن رہے گی یہ زمیں
ظلمتوں کی شام میں اک روشنی ہے کربلا
ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے
کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں
دل ہے پیاسا حسین کے مانند
یہ بدن کربلا کا میداں ہے
کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں
نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا
ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا
دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا
-
موضوعات : تشنگیاور 1 مزید
تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش
رہتا ہے سدا چاک گریبان سحر بھی
-
موضوع : شام
تنہا کھڑا ہوں میں بھی سر کربلائے عصر
اور سوچتا ہوں میرے طرفدار کیا ہوئے
تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو
یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا
عشرت قتل گہہ اہل تمنا مت پوچھ
عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا
زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں
کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا
مصحفیؔ کرب و بلا کا سفر آسان نہیں
سینکڑوں بصرہ و بغداد میں مر جاتے ہیں
سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے
کیا علم دھوم سے تیرے شہدا کے اٹھے
شعور تشنگی اک روز میں پختہ نہیں ہوتا
مرے ہونٹوں نے صدیوں کربلا کی خاک چومی ہے