Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Adil Mansuri's Photo'

عادل منصوری

1936 - 2008 | احمد آباد, انڈیا

ممتاز جدید شاعر، زبان کے روایت شکن استعمال کے لئے مشہور، اپنی خطاطی اور ڈرامہ نگاری کے لئے بھی معروف

ممتاز جدید شاعر، زبان کے روایت شکن استعمال کے لئے مشہور، اپنی خطاطی اور ڈرامہ نگاری کے لئے بھی معروف

عادل منصوری کی ٹاپ ٢٠ شاعری

دریا کے کنارے پہ مری لاش پڑی تھی

اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا

کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو

کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے

لہو میں اترتی رہی چاندنی

بدن رات کا کتنا ٹھنڈا لگا

مجھے پسند نہیں ایسے کاروبار میں ہوں

یہ جبر ہے کہ میں خود اپنے اختیار میں ہوں

کب تک پڑے رہوگے ہواؤں کے ہاتھ میں

کب تک چلے گا کھوکھلے شبدوں کا کاروبار

کوئی خودکشی کی طرف چل دیا

اداسی کی محنت ٹھکانے لگی

نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو

اداس کر گئے نیندوں کے راہگیروں کو

جانے کس کو ڈھونڈنے داخل ہوا ہے جسم میں

ہڈیوں میں راستہ کرتا ہوا پیلا بخار

جیتا ہے صرف تیرے لیے کون مر کے دیکھ

اک روز میری جان یہ حرکت بھی کر کے دیکھ

بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا

میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا

کبھی خاک والوں کی باتیں بھی سن

کبھی آسمانوں سے نیچے اتر

میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر

اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا

جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر

وہ تصویر باتیں بنانے لگی

سوئے تو دل میں ایک جہاں جاگنے لگا

جاگے تو اپنی آنکھ میں جالے تھے خواب کے

ہر آنکھ میں تھی ٹوٹتے لمحوں کی تشنگی

ہر جسم پہ تھا وقت کا سایہ پڑا ہوا

پھر کوئی وسعت آفاق پہ سایہ ڈالے

پھر کسی آنکھ کے نقطے میں اتارا جاؤں

کب سے ٹہل رہے ہیں گریبان کھول کر

خالی گھٹا کو کیا کریں برسات بھی تو ہو

اللہ جانے کس پہ اکڑتا تھا رات دن

کچھ بھی نہیں تھا پھر بھی بڑا بد زبان تھا

حمام کے آئینے میں شب ڈوب رہی تھی

سگریٹ سے نئے دن کا دھواں پھیل رہا تھا

وہ کون تھا جو دن کے اجالے میں کھو گیا

یہ چاند کس کو ڈھونڈنے نکلا ہے شام سے

نیند بھی جاگتی رہی پورے ہوئے نہ خواب بھی

صبح ہوئی زمین پر رات ڈھلی مزار میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے