کتاب پر اشعار
کتاب کو مرکز میں رکھ
کر کی جانے والی شاعری کے بہت سے پہلو ہیں ۔ کتاب محبوب کے چہرے کی تشبیہ میں بھی کام آتی ہے اورعام انسانی زندگی میں روشنی کی ایک علامت کے طور پر بھی اس کو برتا گیا ہے ۔ یہ شاعری آپ کو اس طور پر بھی حیران کرے گی کہ ہم اپنی عام زندگی میں چیزوں کے بارے میں کتنا محدود سوچتے ہیں اورتخلیقی سطح پروہی چھوٹی چھوٹی چیزیں معانی وموضوعات کے کس قدر وسیع دائرے کو جنم دے دیتی ہیں ۔ کتاب کے اس حیرت کدے میں داخل ہوئیے ۔
دھوپ میں نکلو گھٹاؤں میں نہا کر دیکھو
زندگی کیا ہے کتابوں کو ہٹا کر دیکھو
-
موضوعات : ترغیبیاور 1 مزید
یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں
اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں
-
موضوعات : علماور 1 مزید
کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو
کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے
-
موضوع : زندگی
کاغذ میں دب کے مر گئے کیڑے کتاب کے
دیوانہ بے پڑھے لکھے مشہور ہو گیا
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو
-
موضوعات : سوالاور 1 مزید
قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اتارو
ہم لوگ محبت کی کہانی میں مریں ہیں
ایک چراغ اور ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ
اس کے بعد تو جو کچھ ہے وہ سب افسانہ ہے
-
موضوعات : امیداور 1 مزید
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
کبھی آنکھیں کتاب میں گم ہیں
کبھی گم ہیں کتاب آنکھوں میں
وہی فراق کی باتیں وہی حکایت وصل
نئی کتاب کا ایک اک ورق پرانا تھا
کدھر سے برق چمکتی ہے دیکھیں اے واعظ
میں اپنا جام اٹھاتا ہوں تو کتاب اٹھا
کچھ اور سبق ہم کو زمانے نے سکھائے
کچھ اور سبق ہم نے کتابوں میں پڑھے تھے
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں
-
موضوع : صورت
چہرہ کھلی کتاب ہے عنوان جو بھی دو
جس رخ سے بھی پڑھو گے مجھے جان جاؤ گے
جو پڑھا ہے اسے جینا ہی نہیں ہے ممکن
زندگی کو میں کتابوں سے الگ رکھتا ہوں
-
موضوع : زندگی
بارود کے بدلے ہاتھوں میں آ جائے کتاب تو اچھا ہو
اے کاش ہماری آنکھوں کا اکیسواں خواب تو اچھا ہو
-
موضوعات : خواباور 1 مزید
بھلا دیں ہم نے کتابیں کہ اس پری رو کے
کتابی چہرے کے آگے کتاب ہے کیا چیز
-
موضوع : صورت
چھپی ہے ان گنت چنگاریاں لفظوں کے دامن میں
ذرا پڑھنا غزل کی یہ کتاب آہستہ آہستہ
کھلی کتاب تھی پھولوں بھری زمیں میری
کتاب میری تھی رنگ کتاب اس کا تھا
سب کتابوں کے کھل گئے معنی
جب سے دیکھی نظیرؔ دل کی کتاب
وفا نظر نہیں آتی کہیں زمانے میں
وفا کا ذکر کتابوں میں دیکھ لیتے ہیں
کتاب کھول کے دیکھوں تو آنکھ روتی ہے
ورق ورق ترا چہرا دکھائی دیتا ہے
جسے پڑھتے تو یاد آتا تھا تیرا پھول سا چہرہ
ہماری سب کتابوں میں اک ایسا باب رہتا تھا
-
موضوع : صورت
مضمون سوجھتے ہیں ہزاروں نئے نئے
قاصد یہ خط نہیں مرے غم کی کتاب ہے
رکھ دی ہے اس نے کھول کے خود جسم کی کتاب
سادہ ورق پہ لے کوئی منظر اتار دے
-
موضوع : بدن
فلسفے سارے کتابوں میں الجھ کر رہ گئے
درس گاہوں میں نصابوں کی تھکن باقی رہی
-
موضوع : استاد
کتاب حسن ہے تو مل کھلی کتاب کی طرح
یہی کتاب تو مر مر کے میں نے ازبر کی
ہر اک قیاس حقیقت سے دور تر نکلا
کتاب کا نہ کوئی درس معتبر نکلا
جسم تو خاک ہے اور خاک میں مل جائے گا
میں بہر حال کتابوں میں ملوں گا تم کو
بھلے ہی لاکھ حوالوں کے ساتھ کہتے ہیں
مگر وہ صرف کتابوں کی بات کہتے ہیں
-
موضوع : تجربہ
چوم لوں میں ورق ورق اس کا
تیرے چہرے سے جو کتاب ملے
-
موضوع : صورت