Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Adil Mansuri's Photo'

عادل منصوری

1936 - 2008 | احمد آباد, انڈیا

ممتاز جدید شاعر، زبان کے روایت شکن استعمال کے لئے مشہور، اپنی خطاطی اور ڈرامہ نگاری کے لئے بھی معروف

ممتاز جدید شاعر، زبان کے روایت شکن استعمال کے لئے مشہور، اپنی خطاطی اور ڈرامہ نگاری کے لئے بھی معروف

عادل منصوری کے اشعار

33.5K
Favorite

باعتبار

میرے ٹوٹے حوصلے کے پر نکلتے دیکھ کر

اس نے دیواروں کو اپنی اور اونچا کر دیا

کس طرح جمع کیجئے اب اپنے آپ کو

کاغذ بکھر رہے ہیں پرانی کتاب کے

وہ کون تھا جو دن کے اجالے میں کھو گیا

یہ چاند کس کو ڈھونڈنے نکلا ہے شام سے

کوئی خودکشی کی طرف چل دیا

اداسی کی محنت ٹھکانے لگی

جو چپ چاپ رہتی تھی دیوار پر

وہ تصویر باتیں بنانے لگی

جیتا ہے صرف تیرے لیے کون مر کے دیکھ

اک روز میری جان یہ حرکت بھی کر کے دیکھ

مجھے پسند نہیں ایسے کاروبار میں ہوں

یہ جبر ہے کہ میں خود اپنے اختیار میں ہوں

کیوں چلتے چلتے رک گئے ویران راستو

تنہا ہوں آج میں ذرا گھر تک تو ساتھ دو

ذرا دیر بیٹھے تھے تنہائی میں

تری یاد آنکھیں دکھانے لگی

دریا کے کنارے پہ مری لاش پڑی تھی

اور پانی کی تہہ میں وہ مجھے ڈھونڈ رہا تھا

کب تک پڑے رہوگے ہواؤں کے ہاتھ میں

کب تک چلے گا کھوکھلے شبدوں کا کاروبار

چپ چاپ بیٹھے رہتے ہیں کچھ بولتے نہیں

بچے بگڑ گئے ہیں بہت دیکھ بھال سے

نیند بھی جاگتی رہی پورے ہوئے نہ خواب بھی

صبح ہوئی زمین پر رات ڈھلی مزار میں

سوئے تو دل میں ایک جہاں جاگنے لگا

جاگے تو اپنی آنکھ میں جالے تھے خواب کے

کبھی خاک والوں کی باتیں بھی سن

کبھی آسمانوں سے نیچے اتر

اللہ جانے کس پہ اکڑتا تھا رات دن

کچھ بھی نہیں تھا پھر بھی بڑا بد زبان تھا

ایسے ڈرے ہوئے ہیں زمانے کی چال سے

گھر میں بھی پاؤں رکھتے ہیں ہم تو سنبھال کر

کب سے ٹہل رہے ہیں گریبان کھول کر

خالی گھٹا کو کیا کریں برسات بھی تو ہو

حمام کے آئینے میں شب ڈوب رہی تھی

سگریٹ سے نئے دن کا دھواں پھیل رہا تھا

بسمل کے تڑپنے کی اداؤں میں نشہ تھا

میں ہاتھ میں تلوار لیے جھوم رہا تھا

پھولوں کی سیج پر ذرا آرام کیا کیا

اس گلبدن پہ نقش اٹھ آئے گلاب کے

تو کس کے کمرے میں تھی

میں تیرے کمرے میں تھا

ہر آنکھ میں تھی ٹوٹتے لمحوں کی تشنگی

ہر جسم پہ تھا وقت کا سایہ پڑا ہوا

نہ کوئی روک سکا خواب کے سفیروں کو

اداس کر گئے نیندوں کے راہگیروں کو

دروازہ کھٹکھٹا کے ستارے چلے گئے

خوابوں کی شال اوڑھ کے میں اونگھتا رہا

جانے کس کو ڈھونڈنے داخل ہوا ہے جسم میں

ہڈیوں میں راستہ کرتا ہوا پیلا بخار

پھر بالوں میں رات ہوئی

پھر ہاتھوں میں چاند کھلا

حدود وقت سے باہر عجب حصار میں ہوں

میں ایک لمحہ ہوں صدیوں کے انتظار میں ہوں

ہم کو گالی کے لیے بھی لب ہلا سکتے نہیں

غیر کو بوسہ دیا تو منہ سے دکھلا کر دیا

لہو میں اترتی رہی چاندنی

بدن رات کا کتنا ٹھنڈا لگا

دروازہ بند دیکھ کے میرے مکان کا

جھونکا ہوا کا کھڑکی کے پردے ہلا گیا

پھر کوئی وسعت آفاق پہ سایہ ڈالے

پھر کسی آنکھ کے نقطے میں اتارا جاؤں

کھڑکی نے آنکھیں کھولی

دروازے کا دل دھڑکا

انگلی سے اس کے جسم پہ لکھا اسی کا نام

پھر بتی بند کر کے اسے ڈھونڈتا رہا

تصویر میں جو قید تھا وہ شخص رات کو

خود ہی فریم توڑ کے پہلو میں آ گیا

خودبخود شاخ لچک جائے گی

پھل سے بھرپور تو ہو لینے دو

تم کو دعویٰ ہے سخن فہمی کا

جاؤ غالبؔ کے طرف دار بنو

دریا کی وسعتوں سے اسے ناپتے نہیں

تنہائی کتنی گہری ہے اک جام بھر کے دیکھ

وہ تم تک کیسے آتا

جسم سے بھاری سایہ تھا

خواہش سکھانے رکھی تھی کوٹھے پہ دوپہر

اب شام ہو چلی میاں دیکھو کدھر گئی

نشہ سا ڈولتا ہے ترے انگ انگ پر

جیسے ابھی بھگو کے نکالا ہو جام سے

جسم کی مٹی نہ لے جائے بہا کر ساتھ میں

دل کی گہرائی میں گرتا خواہشوں کا آبشار

یادوں نے اسے توڑ دیا مار کے پتھر

آئینے کی خندق میں جو پرچھائیں پڑی تھی

آواز کی دیوار بھی چپ چاپ کھڑی تھی

کھڑکی سے جو دیکھا تو گلی اونگھ رہی تھی

گرتے رہے نجوم اندھیرے کی زلف سے

شب بھر رہیں خموشیاں سایوں سے ہمکنار

وہ جان نو بہار جدھر سے گزر گیا

پیڑوں نے پھول پتوں سے رستہ چھپا لیا

اب ٹوٹنے ہی والا ہے تنہائی کا حصار

اک شخص چیختا ہے سمندر کے آر پار

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے