Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fatima Hasan's Photo'

فاطمہ حسن

1953 | کراچی, پاکستان

کراچی میں مقیم ممتاز شاعرہ

کراچی میں مقیم ممتاز شاعرہ

فاطمہ حسن کے اشعار

9.4K
Favorite

باعتبار

الجھ کے رہ گئے چہرے مری نگاہوں میں

کچھ اتنی تیزی سے بدلے تھے ان کی بات کے رنگ

اس کے پیالے میں زہر ہے کہ شراب

کیسے معلوم ہو بغیر پیے

بچھڑ رہا تھا مگر مڑ کے دیکھتا بھی رہا

میں مسکراتی رہی میں نے بھی کمال کیا

پوری نہ ادھوری ہوں نہ کم تر ہوں نہ برتر

انسان ہوں انسان کے معیار میں دیکھیں

دکھائی دیتا ہے جو کچھ کہیں وہ خواب نہ ہو

جو سن رہی ہوں وہ دھوکا نہ ہو سماعت کا

اور کیا شکل بے مکانی کی

جب سفر میں ہی زندگانی کی

بہت گہری ہے اس کی خامشی بھی

میں اپنے قد کو چھوٹا پا رہی ہوں

ٹھیس کچھ ایسی لگی ہے کہ بکھرنا ہے اسے

دل میں دھڑکن کی جگہ درد ہے اور جان نہیں

کتنے اچھے لوگ تھے کیا رونقیں تھیں ان کے ساتھ

جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کر دیا

رات دریچے تک آ کر رک جاتی ہے

بند آنکھوں میں اس کا چہرہ رہتا ہے

ادھورے لفظ تھے آواز غیر واضح تھی

دعا کو پھر بھی نہیں دیر کچھ اثر میں لگی

سن رہے ہیں کان جو کہتے ہیں سب

لوگ لیکن سوچتے کچھ اور ہیں

میں نے پہنچایا اسے جیت کے ہر خانے میں

میری بازی تھی مری مات سمجھتا ہی نہیں

آنکھوں میں نہ زلفوں میں نہ رخسار میں دیکھیں

مجھ کو مری دانش مرے افکار میں دیکھیں

سکون دل کے لیے عشق تو بہانہ تھا

وگرنہ تھک کے کہیں تو ٹھہر ہی جانا تھا

کوئی نہیں ہے میرے جیسا چاروں اور

اپنے گرد اک بھیڑ سجا کر تنہا ہوں

بھول گئی ہوں کس سے میرا ناطہ تھا

اور یہ ناطہ کیسے ٹوٹا بھول گئی

کب اس کی فتح کی خواہش کو جیت سکتی تھی

میں وہ فریق ہوں جس کو کہ ہار جانا تھا

سنتی رہی میں سب کے دکھ خاموشی سے

کس کا دکھ تھا میرے جیسا بھول گئی

اور کوئی نہیں ہے اس کے سوا

سکھ دیے دکھ دیے اسی نے دیے

میں نے ماں کا لباس جب پہنا

مجھ کو تتلی نے اپنے رنگ دیے

پہچان جن سے تھی وہ حوالے مٹا دیے

اس نے کتاب ذات کا صفحہ بدل دیا

مکاں بناتے ہوئے چھت بہت ضروری ہے

بچا کے صحن میں لیکن شجر بھی رکھنا ہے

کیا کہوں اس سے کہ جو بات سمجھتا ہی نہیں

وہ تو ملنے کو ملاقات سمجھتا ہی نہیں

ہماری نسل سنورتی ہے دیکھ کر ہم کو

سو اپنے آپ کو شفاف تر بھی رکھنا ہے

خوابوں پر اختیار نہ یادوں پہ زور ہے

کب زندگی گزاری ہے اپنے حساب میں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے