Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ismail Merathi's Photo'

اسماعیل میرٹھی

1844 - 1917 | میرٹھ, انڈیا

بچوں کی شاعری کے لئے مشہور

بچوں کی شاعری کے لئے مشہور

اسماعیل میرٹھی کے اشعار

9.5K
Favorite

باعتبار

کیا ہو گیا اسے کہ تجھے دیکھتی نہیں

جی چاہتا ہے آگ لگا دوں نظر کو میں

بد کی صحبت میں مت بیٹھو اس کا ہے انجام برا

بد نہ بنے تو بد کہلائے بد اچھا بد نام برا

دوستی اور کسی غرض کے لئے

وہ تجارت ہے دوستی ہی نہیں

کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا

کہ جو تم سے کوئی کرتا تمہیں ناگوار ہوتا

تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا

کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا

ہے آج رخ ہوا کا موافق تو چل نکل

کل کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے

ہے اشک و آہ راس ہمارے مزاج کو

یعنی پلے ہوئے اسی آب و ہوا کے ہیں

یا وفا ہی نہ تھی زمانہ میں

یا مگر دوستوں نے کی ہی نہیں

چھری کا تیر کا تلوار کا تو گھاؤ بھرا

لگا جو زخم زباں کا رہا ہمیشہ ہرا

اغیار کیوں دخیل ہیں بزم سرور میں

مانا کہ یار کم ہیں پر اتنے تو کم نہیں

خواہشوں نے ڈبو دیا دل کو

ورنہ یہ بحر بیکراں ہوتا

اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہا

دل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں

تو ہی ظاہر ہے تو ہی باطن ہے

تو ہی تو ہے تو میں کہاں تک ہوں

صبح کے بھولے تو آئے شام کو

دیکھیے کب آئیں بھولے شام کے

تھی چھیڑ اسی طرف سے ورنہ

میں اور مجال آرزو کی

ہے اس انجمن میں یکساں عدم و وجود میرا

کہ جو میں یہاں نہ ہوتا یہی کاروبار ہوتا

آغاز عشق عمر کا انجام ہو گیا

ناکامیوں کے غم میں مرا کام ہو گیا

تو نہ ہو یہ تو ہو نہیں سکتا

میرا کیا تھا ہوا ہوا نہ ہوا

دریا کی طرح رواں ہوں لیکن

اب تک بھی وہیں ہوں میں جہاں ہوں

روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے

نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں

پروانہ کی تپش نے خدا جانے کان میں

کیا کہہ دیا کہ شمع کے سر سے دھواں اٹھا

کچھ مری بات کیمیا تو نہ تھی

ایسی بگڑی کہ پھر بنی ہی نہیں

تمہارے دل سے کدورت مٹائے تو جانیں

کھلا ہے شہر میں اک محکمہ صفائی کا

لکھی تھی غزل یہ آگرہ میں

پہلی تاریخ جنوری کی

اٹھا حجاب تو بس دین و دل دیئے ہی بنی

جناب شیخ کو دعویٰ تھا پارسائی کا

واں سجدۂ نیاز کی مٹی خراب ہے

جب تک کہ آب دیدہ سے تازہ وضو نہ ہو

کیا کوہ کن کی کوہ کنی کیا جنون قیس

وادیٔ عشق میں یہ مقام ابتدا کے ہیں

جھوٹ اور مبالغہ نے افسوس

عزت کھو دی سخنوری کی

ہاں دل بے تاب چندے انتظار

امن و راحت کا ٹھکانہ اور ہے

روز جزا میں آخر پوچھا نہ جائے گا کیا

تیرا یہ چپ لگانا میرا سوال کرنا

الٹی ہر ایک رسم جہان شعور ہے

سیدھی سی اک غزل مجھے لکھنی ضرور ہے

مر چکے جیتے جی خوشا قسمت

اس سے اچھی تو زندگی ہی نہیں

اپنی ہی جلوہ گری ہے یہ کوئی اور نہیں

غور سے دیکھ اگر آنکھ میں بینائی ہے

اندیشہ ہے کہ دے نہ ادھر کی ادھر لگا

مجھ کو تو ناپسند وطیرے صبا کے ہیں

مانا بری خبر ہے پہ تیری خبر تو ہے

صبر و قرار نذر کروں نامہ بر کو میں

جس نے چشم مست ساقی دیکھ لی

تا قیامت اس پہ ہشیاری حرام

دید وا دید کی رخصت ہی سہی

میرے حصہ کی قیامت ہی سہی

تاثیر ہو کیا خاک جو باتوں میں گھڑت ہو

کچھ بات نکلتی ہے تو بے ساختہ پن میں

شیخ اور برہمن میں اگر لاگ ہے تو ہو

دونوں شکار غمزہ اسی دل ربا کے ہیں

ہر شکل میں تھا وہی نمودار

ہم نے ہی نگاہ سرسری کی

سب کچھ تو کیا ہم نے پہ کچھ بھی نہ کیا ہائے

حیران ہیں کیا جانیے کیا ہو نہیں سکتا

دلبری جذب محبت کا کرشمہ ہے فقط

کچھ کرامت نہیں جادو نہیں اعجاز نہیں

کیا ہے وہ جان مجسم جس کے شوق دید میں

جامۂ تن پھینک کر روحیں بھی عریاں ہو گئیں

گر خندہ یاد آئے تو سینہ کو چاک کر

گر غمزہ یاد آئے تو زخم سناں اٹھا

کیا اب بھی مجھ پہ فرض نہیں دوستیٔ کفر

وہ ضد سے میری دشمن اسلام ہو گیا

نعمت خلد تھی بشر کے لئے

خاک چاٹی نظر گزر کے لئے

صدر آرا تو جہاں ہو صدر ہے

آگرہ کیا اور الہ آباد کیا

جب غنچہ کو واشد ہوئی تحریک صبا سے

بلبل سے عجب کیا جو کرے نغمہ سرائی

گر دیکھیے تو خاطر ناشاد شاد ہے

سچ پوچھیے تو ہے دل ناکام کام کا

کھولا ہے مجھ پہ سر حقیقت مجاز نے

یہ پختگی صلہ ہے خیالات خام کا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے