Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Masood Tanha's Photo'

مسعود تنہا

1978 | لاہور, پاکستان

مسعود تنہا کے اشعار

364
Favorite

باعتبار

یادوں کے قافلے میں اداسی تھی ہم رکاب

ہجرت میں تیرے شہر سے تنہاؔ نہیں گئے

شہر میں رونقیں سہی تنہاؔ

اپنے گاؤں سے مت کنارا کر

دشت غربت میں ہم سفر نہ بنا

ہم کئی مہربان چھوڑ آئے

دوست ہی خوبیاں بتاتے ہیں

دوست ہی خامیاں نکالتے ہیں

آج آؤ اس طرح جیسے کہ پہلی بار تم

آ گئے تھے بے خیالی میں سنور کے سامنے

میں جب بھی لڑا حق کے لیے اپنے عدو سے

میداں میں رہی کوئی نہ تلوار سلامت

کوئی تازہ لگاؤ زخم دل پر

پرانی یہ نشانی ہو رہی ہے

ہنسے والوں کو جو اک پل میں رلا سکتے ہیں

ایسے لمحات بھی تو زیست میں آ سکتے ہیں

جہاں بھی دیکھا انہیں دوستو سلام کیا

ہمیشہ ہم نے حسینوں کا احترام کیا

گناہوں نے مجھے جکڑا ہوا ہے اس طرح تنہاؔ

کہ لحظہ بھر عبادت بھی سزا معلوم ہوتی ہے

بہت خاموش رہتا ہے جو تنہاؔ

وہ محفل میں برابر بولتا ہے

سلوک رکھتا ہے مجھ سے منافقوں جیسا

تمام شہر میں جو معتبر زیادہ ہے

یہ تماشا سر بازار نہیں ہو سکتا

ہر کوئی میرا خریدار نہیں ہو سکتا

امیر شہر کی تھوڑی سی کجروی کے سبب

غریب شہر نے دیکھے ہیں المیے کتنے

میں جانتا ہوں زمانے کی بے نیازی کو

مجھے پتا ہے سفر میں کہاں ٹھہرنا ہے

اس بار اکھڑ جائیں گے ایوان سیاست

دربان رہیں گے نہ یہ دربار رہے گا

جس کو راحت ہے تیری یادوں سے

تیری فرقت میں اشک بار بھی ہے

زخم دیتا ہے ہر کوئی تنہاؔ

حوصلہ بھی دیا کرے کوئی

بارہا ہم نے اسے رو کے کہا ہے صاحب

دن جدائی کے نہیں ہم سے گزارے جاتے

قافلے رہ میں لوٹنے والا

راہزن ایک رہنما نکلا

بہانے ترک تعلق کے کس نے ڈھونڈے تھے

یہ سارے حلقۂ یاراں میں فیصلے ہوں گے

جنگل میں جو سناٹا تھا

شہر کی جانب آ نکلا ہے

کم ملنے کا احساس گراں لگتا ہے تیرا

اب لطف و کرم بھی ترا پہلے سا نہیں ہے

چپ جو رہتے ہیں تو یہ بات غنیمت جانو

ورنہ ہم لوگ بھی اک حشر اٹھا سکتے ہیں

وہ سخی ہے تو اس کی چوکھٹ پر

دلبری کا سوال کر دیکھیں

بزم یاراں میں بیٹھتا ہوں مگر

میری جانب حریف دیکھتے ہیں

بھنور نے آ لیا ہے کشتیوں کو

نظارے دیکھ لو تم بھی اجل کے

حادثے پھر نہ پیش آتے ہمیں

یہ محافظ جو کرتے گھات پہ غور

جانے کیا کیا اور ہوں راہ طلب میں مشکلیں

ساتھ رکھنا ہے کبھی زاد سفر مت بھولنا

بچ کے نکلا تھا جو کبھی مجھ سے

آ گیا ہے مرے نشانے پر

چھپا کر درد کو سینے میں تنہاؔ

بھرم اس کا بھی کچھ رکھنا پڑے گا

مار ڈالے گی ایک دن تنہاؔ

یہ تری شوخیٔ جمال مجھے

مسیحائی کا ہو اعجاز جس میں

کہیں وہ چارہ گر ملتا نہیں ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے