منور رانا کے اشعار
تمہیں بھی نیند سی آنے لگی ہے تھک گئے ہم بھی
چلو ہم آج یہ قصہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں
فرشتے آ کر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ہیں
اے خاک وطن تجھ سے میں شرمندہ بہت ہوں
مہنگائی کے موسم میں یہ تہوار پڑا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ایسا لگتا ہے کہ وہ بھول گیا ہے ہم کو
اب کبھی کھڑکی کا پردا نہیں بدلا جاتا
ہنس کے ملتا ہے مگر کافی تھکی لگتی ہیں
اس کی آنکھیں کئی صدیوں کی جگی لگتی ہیں
بھلے لگتے ہیں اسکولوں کی یونیفارم میں بچے
کنول کے پھول سے جیسے بھرا تالاب رہتا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کسی کی یاد آتی ہے تو یہ بھی یاد آتا ہے
کہیں چلنے کی ضد کرنا مرا تیار ہو جانا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا
اسٹیشن سے باہر آ کر بوڑھی آنکھیں سوچ رہی ہیں
پتے دیہاتی رہتے ہیں پھل شہری ہو جاتے ہیں
سو جاتے ہیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
-
موضوع : مزدور
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمہاری آنکھوں کی توہین ہے ذرا سوچو
تمہارا چاہنے والا شراب پیتا ہے
تم نے جب شہر کو جنگل میں بدل ڈالا ہے
پھر تو اب قیس کو جنگل سے نکل آنے دو
سگی بہنوں کا جو رشتہ ہے اردو اور ہندی میں
کہیں دنیا کی دو زندہ زبانوں میں نہیں ملتا
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہے
کسی دن میری رسوائی کا یہ کارن نہ بن جائے
تمہارا شہر سے جانا مرا بیمار ہو جانا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کھلونوں کے لئے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے
تجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈ لینا ہے
ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا
وسعت صحرا بھی منہ اپنا چھپا کر نکلی
ساری دنیا مرے کمرے کے برابر نکلی
محبت ایک پاکیزہ عمل ہے اس لیے شاید
سمٹ کر شرم ساری ایک بوسے میں چلی آئی
اس میں بچوں کی جلی لاشوں کی تصویریں ہیں
دیکھنا ہاتھ سے اخبار نہ گرنے پائے
جو چھپا لیتا ہے دیوار کی عریانی کو
دوستو ایسا کلنڈر نہیں پھینکا جاتا
تمہارا نام آیا اور ہم تکنے لگے رستہ
تمہاری یاد آئی اور کھڑکی کھول دی ہم نے
شہر کے رستے ہوں چاہے گاؤں کی پگڈنڈیاں
ماں کی انگلی تھام کر چلنا بہت اچھا لگا
شاید جلی ہیں پھر کہیں نزدیک بستیاں
گزرے ہیں کچھ پرندے ادھر سے ڈرے ہوئے
دولت سے محبت تو نہیں تھی مجھے لیکن
بچوں نے کھلونوں کی طرف دیکھ لیا تھا
آنکھوں سے مانگنے لگے پانی وضو کا ہم
کاغذ پہ جب بھی دیکھ لیا ماں لکھا ہوا
بھٹکتی ہے ہوس دن رات سونے کی دکانوں پر
غریبی کان چھدواتی ہے تنکا ڈال لیتی ہے
تجھے معلوم ہے ان پھیپھڑوں میں زخم آئے ہیں
تری یادوں کی اک ننھی سی چنگاری بچانے میں
منورؔ ماں کے آگے یوں کبھی کھل کر نہیں رونا
جہاں بنیاد ہو اتنی نمی اچھی نہیں ہوتی
کھانے کی چیزیں ماں نے جو بھیجی ہیں گاؤں سے
باسی بھی ہو گئی ہیں تو لذت وہی رہی
جتنے بکھرے ہوئے کاغذ ہیں وہ یکجا کر لے
رات چپکے سے کہا آ کے ہوا نے ہم سے
حادثوں کی گرد سے خود کو بچانے کے لیے
ماں ہم اپنے ساتھ بس تیری دعا لے جائیں گے
یہ سوچ کے ماں باپ کی خدمت میں لگا ہوں
اس پیڑ کا سایا مرے بچوں کو ملے گا
مقدس مسکراہٹ ماں کے ہونٹوں پر لرزتی ہے
کسی بچہ کا جب پہلا سپارہ ختم ہوتا ہے
مرے بچوں میں ساری عادتیں موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی
-
موضوع : اردو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو
تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو
کچھ بکھری ہوئی یادوں کے قصے بھی بہت تھے
کچھ اس نے بھی بالوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا
ہر چہرے میں آتا ہے نظر ایک ہی چہرا
لگتا ہے کوئی میری نظر باندھے ہوئے ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہماری دوستی سے دشمنی شرمائی رہتی ہے
ہم اکبر ہیں ہمارے دل میں جودھابائی رہتی ہے
جب تک رہا ہوں دھوپ میں چادر بنا رہا
میں اپنی ماں کا آخری زیور بنا رہا
دیا ہے ماں نے مجھے دودھ بھی وضو کر کے
محاذ جنگ سے میں لوٹ کر نہ جاؤں گا
دن بھر کی مشقت سے بدن چور ہے لیکن
ماں نے مجھے دیکھا تو تھکن بھول گئی ہے
اس طرح میرے گناہوں کو وہ دھو دیتی ہے
ماں بہت غصے میں ہوتی ہے تو رو دیتی ہے
ہم نہیں تھے تو کیا کمی تھی یہاں
ہم نہ ہوں گے تو کیا کمی ہوگی
پچپن برس کی عمر تو ہونے کو آ گئی
لیکن وہ چہرہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہو سکا
جب بھی دیکھا مرے کردار پہ دھبا کوئی
دیر تک بیٹھ کے تنہائی میں رویا کوئی
اب آپ کی مرضی ہے سنبھالیں نہ سنبھالیں
خوشبو کی طرح آپ کے رومال میں ہم ہیں
بہن کا پیار ماں کی مامتا دو چیختی آنکھیں
یہی تحفے تھے وہ جن کو میں اکثر یاد کرتا تھا