شہزاد احمد کے اشعار
اب اپنے چہرے پر دو پتھر سے سجائے پھرتا ہوں
آنسو لے کر بیچ دیا ہے آنکھوں کی بینائی کو
ٹھہر گئی ہے طبیعت اسے روانی دے
زمین پیاس سے مرنے لگی ہے پانی دے
جو سامنے تھا اس کے خد و خال نہیں یاد
وہ یاد رہا جس کو ذرا دیکھ لیا ہے
میں ترا کچھ بھی نہیں ہوں مگر اتنا تو بتا
دیکھ کر مجھ کو ترے ذہن میں آتا کیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بگڑی ہوئی اس شہر کی حالت بھی بہت ہے
جاؤں بھی کہاں اس سے محبت بھی بہت ہے
ہر دم تری شبیہ تھی آنکھوں کے سامنے
تنہا بھی ہم نہیں تھے ترے ساتھ بھی نہ تھے
ذرا سا غم ہوا اور رو دیے ہم
بڑی نازک طبیعت ہو گئی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تو کچھ بھی ہو کب تک تجھے ہم یاد کریں گے
تا حشر تو یہ دل بھی دھڑکتا نہ رہے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عمر جتنی بھی کٹی اس کے بھروسے پہ کٹی
اور اب سوچتا ہوں اس کا بھروسہ کیا تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خود پر بھی کھولیے نہ کبھی دل کی واردات
آئینہ سامنے ہو تو چہرہ چھپائیے
یار ہوتے تو مجھے منہ پہ برا کہہ دیتے
بزم میں میرا گلا سب نے کیا میرے بعد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اک آگ پھر بھڑک اٹھی ہے دیدہ و دل میں
کچھ اشک پھر سر مژگاں دکھائی دیتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کوئی بتاؤ کہ کس کے لیے تلاش کریں
جہاں چھپی ہیں بہاریں ہمیں خبر ہی سہی
دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر
آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں
جس سے دو روز بھی کھل کر نہ ملاقات ہوئی
مدتوں بعد ملے بھی تو گلا کیسے ہو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سفر شوق ہے بجھتے ہوئے صحراؤں میں
آگ مرہم ہے مرے پاؤں کے چھالوں کے لیے
وہ خوش نصیب تھے جنہیں اپنی خبر نہ تھی
یاں جب بھی آنکھ کھولیے اخبار دیکھیے
آگے نکل گئے وہ مجھے دیکھتے ہوئے
جیسے میں آدمی نہ ہوا نقش پا ہوا
کس لیے وہ شہر کی دیوار سے سر پھوڑتا
قیس دیوانہ سہی اتنا بھی دیوانہ نہ تھا
تلاش کرنی تھی اک روز اپنی ذات مجھے
یہ بھوت بھی مرے سر پر سوار ہونا تھا
تیرے سینے میں بھی اک داغ ہے تنہائی کا
جانتا میں تو کبھی دور نہ ہوتا تجھ سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کھلی فضا میں اگر لڑکھڑا کے چل نہ سکیں
تو زہر پینا ہے بہتر شراب پینے سے
خلق بے پروا خدا بندوں سے تنگ آیا ہوا
میں اکیلا پھر رہا ہوں حشر کے میدان میں
دیوار کس طرف سے بڑھے کچھ خبر نہیں
ہے بے شمار شہروں میں جنگل گھرا ہوا
ساری مخلوق تماشے کے لیے آئی تھی
کون تھا سیکھنے والا ہنر پروانہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بے ہنر ہاتھ چمکنے لگا سورج کی طرح
آج ہم کس سے ملے آج کسے چھو آئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چھپ چھپ کے کہاں تک ترے دیدار ملیں گے
اے پردہ نشیں اب سر بازار ملیں گے
شہر کو چھوڑ کے ویرانوں میں آباد تو ہو
تجھے تنہائی کی آواز سنائی دے گی
تنہائی میں آ جاتی ہیں حوریں مرے گھر میں
چمکاتے ہیں مسجد کے در و بام فرشتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کبھی کبھی چھلک اٹھتا ہے آب و رنگ ان کا
وگرنہ دشت تو سوکھے ہوئے سمندر ہیں
بہت شرمندہ ہوں ابلیس سے میں
خطا میری سزا اس کو ملی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آنکھیں نہ کھلیں نور کے سیلاب میں میری
ہو روشنی اتنی کہ اندھیرا نظر آئے
بس یہی ہوگا کہ دیوانہ کہیں گے اہل بزم
آپ چپ کیوں ہیں مری طرز نوا لے لیجیے
تمہاری بزم سے بھی اٹھ چلے ہیں دیوانے
جسے وہ ڈھونڈ رہے تھے وہ شے یہاں بھی نہیں
آج تک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
پھول باقی نہیں خوشبو کا سفر جاری ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
منزل پہ جا کے خاک اڑانے سے فائدہ
جن کی تلاش تھی مجھے رستے میں مل گئے
چاہتا ہوں کہ ہو پرواز ستاروں سے بلند
اور مرے حصے میں ٹوٹے ہوئے بازو آئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ڈوب جاتا ہے دمکتا ہوا سورج لیکن
مہندیاں شام کے ہاتھوں میں رچا دیتا ہے
یوں کس طرح بتاؤں کہ کیا میرے پاس ہے
تو بھی تو کوئی رنگ دکھا اور دیکھ لے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خامشی ہی میں سہی پر کبھی اظہار تو کر
اس قدر ضبط سے سینہ ترا پھٹ جائے گا
ٹکراتا ہے سر پھوڑتا ہے سارا زمانہ
دیوار کو رستے سے ہٹاتا نہیں پھر بھی
روشن بھی کرو گے کبھی تاریکئ شب کو
یا شمع کی مانند پگھلتے ہی رہوگے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کچھ تیرے سبب تھی مرے پہلو میں حرارت
کچھ دل نے بھی اس آگ کو بھڑکایا ہوا تھا
ہمارے پیش نظر منزلیں کچھ اور بھی تھیں
یہ حادثہ ہے کہ ہم تیرے پاس آ پہنچے
چاہے اب آپ بھی مجھے آسیب ہی کہیں
خود منتخب کیا ہے یہ اجڑا ہوا مکاں
چپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی
بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کم نہیں ہے یہ اذیت کہ ابھی زندہ ہوں
اب مرے سر پہ کوئی اور بلا کیوں آئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جس کے باعث ابھی ٹھنڈک ہے مرے سینے میں
بھڑک اٹھتا ہوں اگر نام لیا جاتا ہے