دیوالی پر شعر
دیوالی کے مبارک موقع پر منتخب شاعری
مل کے ہوتی تھی کبھی عید بھی دیوالی بھی
اب یہ حالت ہے کہ ڈر ڈر کے گلے ملتے ہیں
سبھی کے دیپ سندر ہیں ہمارے کیا تمہارے کیا
اجالا ہر طرف ہے اس کنارے اس کنارے کیا
تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی
نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا
ہونے دو چراغاں محلوں میں کیا ہم کو اگر دیوالی ہے
مزدور ہیں ہم مزدور ہیں ہم مزدور کی دنیا کالی ہے
آج کی رات دوالی ہے دیے روشن ہیں
آج کی رات یہ لگتا ہے میں سو سکتا ہوں
وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا
دشہرے سے دوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے
میلے میں گر نظر نہ آتا روپ کسی متوالی کا
پھیکا پھیکا رہ جاتا تہوار بھی اس دیوالی کا
راہوں میں جان گھر میں چراغوں سے شان ہے
دیپاولی سے آج زمین آسمان ہے
پیار کی جوت سے گھر گھر ہے چراغاں ورنہ
ایک بھی شمع نہ روشن ہو ہوا کے ڈر سے
جو سنتے ہیں کہ ترے شہر میں دسہرا ہے
ہم اپنے گھر میں دوالی سجانے لگتے ہیں
کھڑکیوں سے جھانکتی ہے روشنی
بتیاں جلتی ہیں گھر گھر رات میں
ہے دسہرے میں بھی یوں گر فرحت و زینت نظیرؔ
پر دوالی بھی عجب پاکیزہ تر تیوہار ہے
ہستی کا نظارہ کیا کہئے مرتا ہے کوئی جیتا ہے کوئی
جیسے کہ دوالی ہو کہ دیا جلتا جائے بجھتا جائے
بیس برس سے اک تارے پر من کی جوت جگاتا ہوں
دیوالی کی رات کو تو بھی کوئی دیا جلایا کر
داغوں کی بس دکھا دی دوالی میں روشنی
ہم سا نہ ہوگا کوئی جہاں میں دیوالیہ
جل بجھوں گا بھڑک کے دم بھر میں
میں ہوں گویا دیا دوالی کا
دوستو کیا کیا دوالی میں نشاط و عیش ہے
سب مہیا ہے جو اس ہنگام کے شایاں ہے شے