Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

انجم فاروق

1984 | لاہور, پاکستان

انجم فاروق کے اشعار

26
Favorite

باعتبار

جہاں تک ہو سکے خود کو بچا بدنام ہونے سے

محبت ختم ہوتی ہے محبت عام ہونے سے

کہیں بھی بات ہو میرا حوالہ آ ہی جاتا ہے

محبت نے بچایا ہے مجھے گمنام ہونے سے

الوداعی شام آ پہنچی یہاں

چپ ہے تو میرا خدا ہوتے ہوئے

بس اتنا سا ہے خلاصہ مری کہانی کا

کہ ابتدا تری آنکھیں ہیں انتہا مرا عشق

حاکم شہر کی خواہش کہ حکومت کی جائے

ورنہ حالات تو ایسے ہیں کہ ہجرت کی جائے

تو بتا کیسے گزاری شب ہجراں تو نے

میں تو جب رو نہ سکا میں نے غزل خوانی کی

صاحبو میں نے تراشے نہیں پتھر کے صنم

میرے ہاتھوں سے بنا اور بنا ایک ہی شخص

ایسے ملیں کہ ہم کو بچھڑنے کا ڈر نہ ہو

وہ عشق کوئی عشق ہے جو عمر بھر نہ ہو

ابھی تو خوش ہوں ترے عشق میں بہت خوش ہوں

یہ ایک دن مرا جینا عذاب کر دے گا

بالکونی پہ کھڑی لڑکیاں کب سوچتی ہیں

یہ جگہ ٹھیک نہیں آئنہ داری کے لیے

گلاب رت کی طرح عرصۂ جمال میں آ

ہوائے غم سے نکل موسم وصال میں آ

عشق وقت دگر پہ کیوں چھوڑیں

یہ ترے بعد ہو نہیں سکتا

بہت اچھا بہت اچھا بہت اچھا ہے تو لیکن

تجھے کوئی کہے اچھا مجھے اچھا نہیں لگتا

وہ تو انجمؔ خواب تھا بس خواب تھا

کب ترا تھا وہ ترا ہوتے ہوئے

اس لیے سانپ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں پیارے

میں مہکتا ہوں ترے ہجر میں صندل ہو کر

مرے پنجرے کو توڑتے کیوں ہو

جب میں آزاد ہو نہیں سکتا

ان کی چہکار سے یادوں میں خلل پڑتا ہے

گھر کی دیوار سے چڑیوں کو اڑا دو انجمؔ

اب ترا رستہ جدا میرا جدا

دیکھ قسمت کا لکھا ہوتے ہوئے

میں چاہتا ہوں کہ تجھ سا دکھائی دوں میں بھی

جمال یار کبھی میرے خد و خال میں آ

اس لیے کشکول میں پڑتی ہے بھیک

ہم نے ہے لاٹھی سے لٹکایا ہوا

تو زندگی کا مری انتساب ہے مرے دوست

سو تیرے نام ہی پہلی کتاب ہے مرے دوست

اب تو ہوائے شہر بھی بالکل تری طرح

یہ چاہتی ہے کوئی دیا بام پر نہ ہو

میں اگر حرف غلط تھا تو لکھا ہی کیوں تھا

لکھ دیا ہے تو خدارا نہ مٹایا جائے

Recitation

Jashn-e-Rekhta 10th Edition | 5-6-7 December Get Tickets Here

بولیے