انجم فاروق کے اشعار
بس اتنا سا ہے خلاصہ مری کہانی کا
کہ ابتدا تری آنکھیں ہیں انتہا مرا عشق
میں چاہتا ہوں کہ تجھ سا دکھائی دوں میں بھی
جمال یار کبھی میرے خد و خال میں آ
اس لیے کشکول میں پڑتی ہے بھیک
ہم نے ہے لاٹھی سے لٹکایا ہوا
حاکم شہر کی خواہش کہ حکومت کی جائے
ورنہ حالات تو ایسے ہیں کہ ہجرت کی جائے
کہیں بھی بات ہو میرا حوالہ آ ہی جاتا ہے
محبت نے بچایا ہے مجھے گمنام ہونے سے
اب تو ہوائے شہر بھی بالکل تری طرح
یہ چاہتی ہے کوئی دیا بام پر نہ ہو
میں اگر حرف غلط تھا تو لکھا ہی کیوں تھا
لکھ دیا ہے تو خدارا نہ مٹایا جائے
تو زندگی کا مری انتساب ہے مرے دوست
سو تیرے نام ہی پہلی کتاب ہے مرے دوست
بالکونی پہ کھڑی لڑکیاں کب سوچتی ہیں
یہ جگہ ٹھیک نہیں آئنہ داری کے لیے
تو بتا کیسے گزاری شب ہجراں تو نے
میں تو جب رو نہ سکا میں نے غزل خوانی کی
صاحبو میں نے تراشے نہیں پتھر کے صنم
میرے ہاتھوں سے بنا اور بنا ایک ہی شخص
جہاں تک ہو سکے خود کو بچا بدنام ہونے سے
محبت ختم ہوتی ہے محبت عام ہونے سے
گلاب رت کی طرح عرصۂ جمال میں آ
ہوائے غم سے نکل موسم وصال میں آ
ان کی چہکار سے یادوں میں خلل پڑتا ہے
گھر کی دیوار سے چڑیوں کو اڑا دو انجمؔ
بہت اچھا بہت اچھا بہت اچھا ہے تو لیکن
تجھے کوئی کہے اچھا مجھے اچھا نہیں لگتا
وہ تو انجمؔ خواب تھا بس خواب تھا
کب ترا تھا وہ ترا ہوتے ہوئے
اس لیے سانپ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں پیارے
میں مہکتا ہوں ترے ہجر میں صندل ہو کر
ایسے ملیں کہ ہم کو بچھڑنے کا ڈر نہ ہو
وہ عشق کوئی عشق ہے جو عمر بھر نہ ہو
ابھی تو خوش ہوں ترے عشق میں بہت خوش ہوں
یہ ایک دن مرا جینا عذاب کر دے گا