Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Arsh Malsiyani's Photo'

عرش ملسیانی

1908 - 1979 | جالندھر, انڈیا

مشہور شاعر جوش ملسیانی کے صاحبزادے

مشہور شاعر جوش ملسیانی کے صاحبزادے

عرش ملسیانی کے اشعار

7.3K
Favorite

باعتبار

محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے

خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے

موت ہی انسان کی دشمن نہیں

زندگی بھی جان لے کر جائے گی

اک روشنی سی دل میں تھی وہ بھی نہیں رہی

وہ کیا گئے چراغ تمنا بجھا گئے

خشک باتوں میں کہاں ہے شیخ کیف زندگی

وہ تو پی کر ہی ملے گا جو مزا پینے میں ہے

بلا ہے قہر ہے آفت ہے فتنہ ہے قیامت ہے

حسینوں کی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے

عرشؔ کس دوست کو اپنا سمجھوں

سب کے سب دوست ہیں دشمن کی طرف

ہے دیکھنے والوں کو سنبھلنے کا اشارا

تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں

حسن ہر حال میں ہے حسن پراگندہ نقاب

کوئی پردہ ہے نہ چلمن یہ کوئی کیا جانے

پی لیں گے ذرا شیخ تو کچھ گرم رہیں گے

ٹھنڈا نہ کہیں کر دیں یہ جنت کی ہوائیں

بس اسی دھن میں رہا مر کے ملے گی جنت

تم کو اے شوخ نہ جینے کا قرینہ آیا

جتنی وہ مرے حال پہ کرتے ہیں جفائیں

آتا ہے مجھے ان کی محبت کا یقیں اور

تری دنیا کو اے واعظ مری دنیا سے کیا نسبت

تری دنیا میں تقدیریں میری دنیا میں تدبیریں

توبہ توبہ یہ بلا خیز جوانی توبہ

دیکھ کر اس بت کافر کو خدا یاد آیا

ساقی مری خموش مزاجی کی لاج رکھ

اقرار گر نہیں ہے تو انکار بھی نہیں

درد معراج کو پہنچتا ہے

جب کوئی ترجماں نہیں ملتا

خودی کا راز داں ہو کر خودی کی داستاں ہو جا

جہاں سے کیا غرض تجھ کو تو آپ اپنا جہاں ہو جا

داغ دل سے بھی روشنی نہ ملی

یہ دیا بھی جلا کے دیکھ لیا

عشق بتاں کا لے کے سہارا کبھی کبھی

اپنے خدا کو ہم نے پکارا کبھی کبھی

عرشؔ پہلے یہ شکایت تھی خفا ہوتا ہے وہ

اب یہ شکوہ ہے کہ وہ ظالم خفا ہوتا نہیں

چمن میں کون ہے پرسان حال شبنم کا

غریب روئی تو غنچوں کو بھی ہنسی آئی

نہ نشیمن ہے نہ ہے شاخ نشیمن باقی

لطف جب ہے کہ کرے اب کوئی برباد مجھے

فرشتے کو مرے نالے یوں ہی بد نام کرتے ہیں

مرے اعمال لکھتی ہیں مری قسمت کی تحریریں

دئے جلائے امیدوں نے دل کے گرد بہت

کسی طرف سے نہ اس گھر میں روشنی آئی

وہ صحرا جس میں کٹ جاتے ہیں دن یاد بہاراں سے

بالفاظ دگر اس کو چمن کہنا ہی پڑتا ہے

سجدے کرتے بھی ہیں خود انساں در انساں پہ روز

اور پھر کہتے بھی ہیں بندہ خدا ہوتا نہیں

دل فسردہ پہ سو بار تازگی آئی

مگر وہ یاد کہ جا کر نہ پھر کبھی آئی

Recitation

بولیے