عرش ملسیانی کے اشعار
محبت سوز بھی ہے ساز بھی ہے
خموشی بھی ہے یہ آواز بھی ہے
موت ہی انسان کی دشمن نہیں
زندگی بھی جان لے کر جائے گی
اک روشنی سی دل میں تھی وہ بھی نہیں رہی
وہ کیا گئے چراغ تمنا بجھا گئے
-
موضوع : جدائی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خشک باتوں میں کہاں ہے شیخ کیف زندگی
وہ تو پی کر ہی ملے گا جو مزا پینے میں ہے
عرشؔ کس دوست کو اپنا سمجھوں
سب کے سب دوست ہیں دشمن کی طرف
بلا ہے قہر ہے آفت ہے فتنہ ہے قیامت ہے
حسینوں کی جوانی کو جوانی کون کہتا ہے
ہے دیکھنے والوں کو سنبھلنے کا اشارا
تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں
-
موضوع : نقاب
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حسن ہر حال میں ہے حسن پراگندہ نقاب
کوئی پردہ ہے نہ چلمن یہ کوئی کیا جانے
-
موضوع : حسن
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پی لیں گے ذرا شیخ تو کچھ گرم رہیں گے
ٹھنڈا نہ کہیں کر دیں یہ جنت کی ہوائیں
جتنی وہ مرے حال پہ کرتے ہیں جفائیں
آتا ہے مجھے ان کی محبت کا یقیں اور
تری دنیا کو اے واعظ مری دنیا سے کیا نسبت
تری دنیا میں تقدیریں میری دنیا میں تدبیریں
درد معراج کو پہنچتا ہے
جب کوئی ترجماں نہیں ملتا
-
موضوع : درد
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
توبہ توبہ یہ بلا خیز جوانی توبہ
دیکھ کر اس بت کافر کو خدا یاد آیا
ساقی مری خموش مزاجی کی لاج رکھ
اقرار گر نہیں ہے تو انکار بھی نہیں
خودی کا راز داں ہو کر خودی کی داستاں ہو جا
جہاں سے کیا غرض تجھ کو تو آپ اپنا جہاں ہو جا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بس اسی دھن میں رہا مر کے ملے گی جنت
تم کو اے شوخ نہ جینے کا قرینہ آیا
عرشؔ پہلے یہ شکایت تھی خفا ہوتا ہے وہ
اب یہ شکوہ ہے کہ وہ ظالم خفا ہوتا نہیں
عشق بتاں کا لے کے سہارا کبھی کبھی
اپنے خدا کو ہم نے پکارا کبھی کبھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
داغ دل سے بھی روشنی نہ ملی
یہ دیا بھی جلا کے دیکھ لیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
نہ نشیمن ہے نہ ہے شاخ نشیمن باقی
لطف جب ہے کہ کرے اب کوئی برباد مجھے
چمن میں کون ہے پرسان حال شبنم کا
غریب روئی تو غنچوں کو بھی ہنسی آئی
فرشتے کو مرے نالے یوں ہی بد نام کرتے ہیں
مرے اعمال لکھتی ہیں مری قسمت کی تحریریں
دئے جلائے امیدوں نے دل کے گرد بہت
کسی طرف سے نہ اس گھر میں روشنی آئی
وہ صحرا جس میں کٹ جاتے ہیں دن یاد بہاراں سے
بالفاظ دگر اس کو چمن کہنا ہی پڑتا ہے
سجدے کرتے بھی ہیں خود انساں در انساں پہ روز
اور پھر کہتے بھی ہیں بندہ خدا ہوتا نہیں
دل فسردہ پہ سو بار تازگی آئی
مگر وہ یاد کہ جا کر نہ پھر کبھی آئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ