Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Fahmi Badayuni's Photo'

فہمی بدایونی

1952 - 2024 | بدایوں, انڈیا

مشہور اردو شاعر، دل کو چھو لینے والے اشعار اور جدید موضوعات سے متاثر کرنے کے لیے مشہور

مشہور اردو شاعر، دل کو چھو لینے والے اشعار اور جدید موضوعات سے متاثر کرنے کے لیے مشہور

فہمی بدایونی کے اشعار

14.2K
Favorite

باعتبار

پوچھ لیتے وہ بس مزاج مرا

کتنا آسان تھا علاج مرا

میں نے اس کی طرف سے خط لکھا

اور اپنے پتے پہ بھیج دیا

کاش وہ راستے میں مل جائے

مجھ کو منہ پھیر کر گزرنا ہے

پریشاں ہے وہ جھوٹا عشق کر کے

وفا کرنے کی نوبت آ گئی ہے

خوشی سے کانپ رہی تھیں یہ انگلیاں اتنی

ڈلیٹ ہو گیا اک شخص سیو کرنے میں

خوں پلا کر جو شیر پالا تھا

اس نے سرکس میں نوکری کر لی

ٹہلتے پھر رہے ہیں سارے گھر میں

تری خالی جگہ کو بھر رہے ہیں

مر گیا ہم کو ڈانٹنے والا

اب شرارت میں جی نہیں لگتا

جب تلک قوت تخیئل ہے

آپ پہلو سے اٹھ نہیں سکتے

کٹی ہے عمر بس یہ سوچنے میں

مرے بارے میں وہ کیا سوچتا ہے

کچھ نہ کچھ بولتے رہو ہم سے

چپ رہو گے تو لوگ سن لیں گے

بدن کا ذکر باطل ہے تو آؤ

بنا سر پیر کی باتیں کریں گے

آج پیوند کی ضرورت ہے

یہ سزا ہے رفو نہ کرنے کی

جو کہا وہ نہیں کیا اس نے

وہ کیا جو نہیں کہا اس نے

آپ تشریف لائے تھے اک روز

دوسرے روز اعتبار ہوا

اسے لے کر جو گاڑی جا چکی ہے

میں شاید اس کے نیچے آ رہا ہوں

جس کو ہر وقت دیکھتا ہوں میں

اس کو بس ایک بار دیکھا ہے

میں چپ رہتا ہوں اتنا بول کر بھی

تو چپ رہ کر بھی کتنا بولتا ہے

پھولوں کو سرخی دینے میں

پتے پیلے ہو جاتے ہیں

نگاہیں کرتی رہ جاتی ہیں ہجے

وو جب چہرہ سے املا بولتا ہے

لیلیٰ گھر میں سلائی کرنے لگی

قیس دلی میں کام کرنے لگا

مجھ پہ ہو کر گزر گئی دنیا

میں تری راہ سے ہٹا ہی نہیں

شہسواروں نے روشنی مانگی

میں نے بیساکھیاں جلا ڈالیں

بہت کہتی رہی آندھی سے چڑیا

کہ پہلی بار بچے اڑ رہے ہیں

توڑے جاتے ہیں جو شیشے

وہ نوکیلے ہو جاتے ہیں

سخت مشکل تھا امتحان غزل

میرؔ کی نقل کر کے پاس ہوئے

پھر اسی قبر کے برابر سے

زندہ رہنے کا راستہ نکلا

مرے سائے میں اس کا نقش پا ہے

بڑا احسان مجھ پر دھوپ کا ہے

اچھے خاصے قفس میں رہتے تھے

جانے کیوں آسماں دکھائی دیا

کہیں کوئی کماں تانے ہوئے ہے

کبوتر آڑے ترچھے اڑ رہے ہیں

یار تم کو کہاں کہاں ڈھونڈا

جاؤ تم سے میں بولتا ہی نہیں

چھت کا حال بتا دیتا ہے

پرنالے سے گرتا پانی

ابھی چمکے نہیں غالبؔ کے جوتے

ابھی نقاد پالش کر رہے ہیں

ترے موزے یہیں پر رہ گئے ہیں

میں ان سے اپنے دستانے بنا لوں

تری تصویر، پنکھا، میز، مفلر

مرے کمرے میں گردش کر رہے ہیں

میں تو رہتا ہوں دشت میں مصروف

قیس کرتا ہے کام کاج مرا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے