Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Hakeem Manzoor's Photo'

حکیم منظور

1937

حکیم منظور کے اشعار

1.3K
Favorite

باعتبار

شہر کے آئین میں یہ مد بھی لکھی جائے گی

زندہ رہنا ہے تو قاتل کی سفارش چاہیئے

ہر ایک آنکھ کو کچھ ٹوٹے خواب دے کے گیا

وہ زندگی کو یہ کیسا عذاب دے کے گیا

گرے گی کل بھی یہی دھوپ اور یہی شبنم

اس آسماں سے نہیں اور کچھ اترنے کا

مجھ میں تھے جتنے عیب وہ میرے قلم نے لکھ دیئے

مجھ میں تھا جتنا حسن وہ میرے ہنر میں گم ہوا

ہم کسی بہروپئے کو جان لیں مشکل نہیں

اس کو کیا پہچانیے جس کا کوئی چہرا نہ ہو

تیری آنکھوں میں آنسو بھی دیکھے ہیں

تیرے ہاتھوں میں دیکھا ہے خنجر بھی

اپنی نظر سے ٹوٹ کر اپنی نظر میں گم ہوا

وہ بڑا با شعور تھا اپنے ہی گھر میں گم ہوا

اتنا بدل گیا ہوں کہ پہچاننے مجھے

آئے گا وہ تو خود سے گزر کر ہی آئے گا

باغ میں ہونا ہی شاید سیب کی پہچان تھی

اب کہ وہ بازار میں ہے اب تو بکنا ہے اسے

اگرچہ اس کی ہر اک بات کھردری ہے بہت

مجھے پسند ہے ڈھنگ اس کے بات کرنے کا

جو میرے پاس تھا سب لوٹ لے گیا کوئی

کواڑ بند رکھوں اب مجھے ہے ڈر کس کا

تجھ پہ کھل جائیں گے خود اپنے بھی اسرار کئی

تو ذرا مجھ کو بھی رکھ اپنے برابر میں کبھی

نہ جانے کس لیے روتا ہوں ہنستے ہنستے میں

بسا ہوا ہے نگاہوں میں آئینہ کوئی

دیکھتے ہیں در و دیوار حریفانہ مجھے

اتنا بے بس بھی کہاں ہوگا کوئی گھر میں کبھی

چھوڑ کر بار صدا وہ بے صدا ہو جائے گا

وہم تھا میرا کہ پتھر آئینہ ہو جائے گا

ریزہ ریزہ رات بھر جو خوف سے ہوتا رہا

دن کو سانسوں پر ابھی تک بوجھ اس پتھر کا ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے