Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Javed Akhtar's Photo'

جاوید اختر

1945 | ممبئی, انڈیا

فلم اسکرپٹ رائٹر، نغمہ نگار اور شاعر۔ ’ شعلے‘ اور ’ دیوار‘ جیسی فلموں کے لئے مشہور۔

فلم اسکرپٹ رائٹر، نغمہ نگار اور شاعر۔ ’ شعلے‘ اور ’ دیوار‘ جیسی فلموں کے لئے مشہور۔

جاوید اختر کے اشعار

43.8K
Favorite

باعتبار

کبھی جو خواب تھا وہ پا لیا ہے

مگر جو کھو گئی وہ چیز کیا تھی

جدھر جاتے ہیں سب جانا ادھر اچھا نہیں لگتا

مجھے پامال رستوں کا سفر اچھا نہیں لگتا

مجھے دشمن سے بھی خودداری کی امید رہتی ہے

کسی کا بھی ہو سر قدموں میں سر اچھا نہیں لگتا

تب ہم دونوں وقت چرا کر لاتے تھے

اب ملتے ہیں جب بھی فرصت ہوتی ہے

ڈر ہم کو بھی لگتا ہے رستے کے سناٹے سے

لیکن ایک سفر پر اے دل اب جانا تو ہوگا

اونچی عمارتوں سے مکاں میرا گھر گیا

کچھ لوگ میرے حصے کا سورج بھی کھا گئے

ان چراغوں میں تیل ہی کم تھا

کیوں گلہ پھر ہمیں ہوا سے رہے

تم یہ کہتے ہو کہ میں غیر ہوں پھر بھی شاید

نکل آئے کوئی پہچان ذرا دیکھ تو لو

غلط باتوں کو خاموشی سے سننا حامی بھر لینا

بہت ہیں فائدے اس میں مگر اچھا نہیں لگتا

دھواں جو کچھ گھروں سے اٹھ رہا ہے

نہ پورے شہر پر چھائے تو کہنا

یاد اسے بھی ایک ادھورا افسانہ تو ہوگا

کل رستے میں اس نے ہم کو پہچانا تو ہوگا

ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے

صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے

اسی جگہ اسی دن تو ہوا تھا یہ اعلان

اندھیرے ہار گئے زندہ باد ہندوستان

میں پا سکا نہ کبھی اس خلش سے چھٹکارا

وہ مجھ سے جیت بھی سکتا تھا جانے کیوں ہارا

اس شہر میں جینے کے انداز نرالے ہیں

ہونٹوں پہ لطیفے ہیں آواز میں چھالے ہیں

ذرا موسم تو بدلا ہے مگر پیڑوں کی شاخوں پر نئے پتوں کے آنے میں ابھی کچھ دن لگیں گے

بہت سے زرد چہروں پر غبار غم ہے کم بے شک پر ان کو مسکرانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے

مجھے مایوس بھی کرتی نہیں ہے

یہی عادت تری اچھی نہیں ہے

یہی حالات ابتدا سے رہے

لوگ ہم سے خفا خفا سے رہے

سب کا خوشی سے فاصلہ ایک قدم ہے

ہر گھر میں بس ایک ہی کمرہ کم ہے

میں بچپن میں کھلونے توڑتا تھا

مرے انجام کی وہ ابتدا تھی

بہانہ ڈھونڈتے رہتے ہیں کوئی رونے کا

ہمیں یہ شوق ہے کیا آستیں بھگونے کا

غیروں کو کب فرصت ہے دکھ دینے کی

جب ہوتا ہے کوئی ہمدم ہوتا ہے

اگر پلک پہ ہے موتی تو یہ نہیں کافی

ہنر بھی چاہئے الفاظ میں پرونے کا

عقل یہ کہتی ہے دنیا ملتی ہے بازار میں

دل مگر یہ کہتا ہے کچھ اور بہتر دیکھیے

اس کی آنکھوں میں بھی کاجل پھیل رہا ہے

میں بھی مڑ کے جاتے جاتے دیکھ رہا ہوں

کوئی شکوہ نہ غم نہ کوئی یاد

بیٹھے بیٹھے بس آنکھ بھر آئی

نیکی اک دن کام آتی ہے ہم کو کیا سمجھاتے ہو

ہم نے بے بس مرتے دیکھے کیسے پیارے پیارے لوگ

اک محبت کی یہ تصویر ہے دو رنگوں میں

شوق سب میرا ہے اور ساری حیا اس کی ہے

اک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں

ڈھونڈھتا پھرا اس کو وہ نگر نگر تنہا

کبھی ہم کو یقیں تھا زعم تھا دنیا ہماری جو مخالف ہو تو ہو جائے مگر تم مہرباں ہو

ہمیں یے بات ویسے یاد تو اب کیا ہے لیکن ہاں اسے یکسر بھلانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے

یہ زندگی بھی عجب کاروبار ہے کہ مجھے

خوشی ہے پانے کی کوئی نہ رنج کھونے کا

کھلا ہے در پہ ترا انتظار جاتا رہا

خلوص تو ہے مگر اعتبار جاتا رہا

اس دریچے میں بھی اب کوئی نہیں اور ہم بھی

سر جھکائے ہوئے چپ چاپ گزر جاتے ہیں

میں بھول جاؤں تمہیں اب یہی مناسب ہے

مگر بھلانا بھی چاہوں تو کس طرح بھولوں

آگہی سے ملی ہے تنہائی

آ مری جان مجھ کو دھوکا دے

ہر طرف شور اسی نام کا ہے دنیا میں

کوئی اس کو جو پکارے تو پکارے کیسے

چھت کی کڑیوں سے اترتے ہیں مرے خواب مگر

میری دیواروں سے ٹکرا کے بکھر جاتے ہیں

دکھ کے جنگل میں پھرتے ہیں کب سے مارے مارے لوگ

جو ہوتا ہے سہہ لیتے ہیں کیسے ہیں بے چارے لوگ

پھر خموشی نے ساز چھیڑا ہے

پھر خیالات نے لی انگڑائی

ایک یہ دن جب اپنوں نے بھی ہم سے ناطہ توڑ لیا

ایک وہ دن جب پیڑ کی شاخیں بوجھ ہمارا سہتی تھیں

میں قتل تو ہو گیا تمہاری گلی میں لیکن

مرے لہو سے تمہاری دیوار گل رہی ہے

اس کے بندوں کو دیکھ کر کہئے

ہم کو امید کیا خدا سے رہے

تھیں سجی حسرتیں دکانوں پر

زندگی کے عجیب میلے تھے

خون سے سینچی ہے میں نے جو زمیں مر مر کے

وہ زمیں ایک ستم گر نے کہا اس کی ہے

ہے پاش پاش مگر پھر بھی مسکراتا ہے

وہ چہرہ جیسے ہو ٹوٹے ہوئے کھلونے کا

پر سکوں لگتی ہے کتنی جھیل کے پانی پہ بط

پیروں کی بے تابیاں پانی کے اندر دیکھیے

ہمارے شوق کی یہ انتہا تھی

قدم رکھا کہ منزل راستا تھی

تم بیٹھے ہو لیکن جاتے دیکھ رہا ہوں

میں تنہائی کے دن آتے دیکھ رہا ہوں

کل جہاں دیوار تھی ہے آج اک در دیکھیے

کیا سمائی تھی بھلا دیوانے کے سر دیکھیے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے