Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

جوشش عظیم آبادی

1737 - 1801

میر تقی میر کے ہمعصر،دبستان عظیم آباد کے نمائندہ شاعر، دلی اسکول کے طرز میں شاعری کے لیے مشہور

میر تقی میر کے ہمعصر،دبستان عظیم آباد کے نمائندہ شاعر، دلی اسکول کے طرز میں شاعری کے لیے مشہور

جوشش عظیم آبادی کے اشعار

1.7K
Favorite

باعتبار

چھپ چھپ کے دیکھتے ہو بہت اس کو ہر کہیں

ہوگا غضب جو پڑ گئی اس کی نظر کہیں

دھیان میں اس کے فنا ہو کر کوئی منہ دیکھ لے

دل وہ آئینہ نہیں جو ہر کوئی منہ دیکھ لے

احوال دیکھ کر مری چشم پر آب کا

دریا سے آج ٹوٹ گیا دل حباب کا

اس کے رخسار پر کہاں ہے زلف

شعلۂ حسن کا دھواں ہے زلف

کس طرح تجھ سے ملاقات میسر ہووے

یہ دعا گو ترا نے زور نہ زر رکھتا ہے

اللہ تا قیامت تجھ کو رکھے سلامت

کیا کیا ستم نہ دیکھے ہم نے ترے کرم سے

تجھ سے ہم بزم ہوں نصیب کہاں

تو کہاں اور میں غریب کہاں

بھول جاتا ہوں میں خدائی کو

اس سے جب رام رام ہوتی ہے

یہ سچ ہے کہ اوروں ہی کو تم یاد کرو گے

میرے دل ناشاد کو کب شاد کرو گے

طعنہ زن کفر پہ ہوتا ہے عبث اے زاہد

بت پرستی ہے ترے زہد ریا سے بہتر

حسن اور عشق کا مذکور نہ ہووے جب تک

مجھ کو بھاتا نہیں سننا کسی افسانے کا

پھرتے ہیں کئی قیس سے حیران و پریشان

اس عشق کی سرکار میں بہبود نہیں ہے

سجدہ جسے کریں ہیں وو ہر سو ہے جلوہ گر

جیدھر ترا مزاج ہو اودھر نماز کر

جو آنکھوں میں پھرتا ہے پھرے آنکھوں کے آگے

آسان خدا کر دے یہ دشوار محبت

داغ جگر کا اپنے احوال کیا سناؤں

بھرتے ہیں اس کے آگے شمع و چراغ پانی

بس کر یہ خیال آفرینی

اس کے ہی خیال میں رہا کر

اے زلف یار تجھ سے بھی آشفتہ تر ہوں میں

مجھ سا نہ کوئی ہوگا پریشان روزگار

ہمارے شعر کو سن کر سکوت خوب نہیں

بیان کیجئے اس میں جو کچھ تأمل ہو

ہیں دیر و حرم میں تو بھرے شیخ و برہمن

جز خانۂ دل کیجئے پھر قصد کدھر کا

کفر پر مت طعن کر اے شیخ میرے رو بہ رو

مجھ کو ہے معلوم کیفیت ترے اسلام کی

ہم کو تو یاد نہیں ہم پہ جو گزری تجھ بن

تیرے آگے کہے جس کو یہ کہانی آئے

جو ترے سامنے آئے ہیں سو کم ٹھہرے ہیں

یہ ہمارا ہی کلیجہ ہے کہ ہم ٹھہرے ہیں

رکھتے ہیں دہانوں پہ سدا مہر خموشی

وے لوگ جنہیں آتی ہے گفتار محبت

زلف اور رخ کی پرستش شرط ہے

کفر ہو اے شیخ یا اسلام ہو

جو ہے کعبہ وہ ہی بت خانہ ہے شیخ و برہمن

اس کی ناحق کرتے ہو تکرار دونوں ایک ہیں

چشم وحدت سے گر کوئی دیکھے

بت پرستی بھی حق پرستی ہے

شرط انداز ہے اگر آئے

بات چھوٹی ہو یا بڑی منہ پر

ترا شعر ؔجوشش تجھے ہے پسند

تو محتاج ہے کس کی تائید کا

اے چرخ بے کسی پہ ہماری نظر نہ کر

جو کچھ کہ تجھ سے ہو سکے تو در گزر نہ کر

دیوانے چاہتا ہے اگر وصل یار ہو

تیرا بڑا رقیب ہے دل اس سے راہ رکھ

مونس تازہ ہیں یہ درد و الم

مدتوں کا رفیق ہے غم تو

ناخن یار سے بھی کھل نہ سکی

دانۂ اشک کی گرہ اے چشم

زاہد نہ رہنے پائیں گے آباد مے کدے

جب تک نہ ڈھایئے گا تری خانقاہ کو

صبا بھی دور کھڑی اپنے ہاتھ ملتی ہے

تری گلی میں کسی کا گزر نہیں ہرگز

بے گنہ کہتا پھرے ہے آپ کو

شیخ نسل حضرت آدم نہیں

وہ ماہ بھر کے جام مے ناب لے گیا

اک دم میں آفتاب کو مہتاب لے گیا

خار زار عشق کو کیا ہو گیا

پاؤں میں کانٹے چبھوتا ہی نہیں

تنک اودھر ہی رہ اے حرص دنیا

نہ دے تکلیف اس گوشہ نشیں کو

اپنا دشمن ہو اگر کچھ ہے شعور

انتظار وعدۂ فردا نہ کر

ایسی مرے خزانۂ دل میں بھری ہے آگ

فوارہ چھوٹتا ہے مژہ سے شرار کا

انسان تو ہے صورت حق کعبے میں کیا ہے

اے شیخ بھلا کیوں نہ کروں سجدے بتاں کو

گلزار محبت میں نہ پھولے نہ پھلے ہم

مانند چنار آگ میں اپنی ہی جلے ہم

یہ زیست طرف دل ہی میں یارب تمام ہو

کافر ہوں گر ارادۂ بیت الحرام ہو

یاں تک رہے جدا کہ ہمارے مذاق میں

آخر کہ زہر ہجر بھی تریاک ہو گیا

مر گئے ؔجوشش اسی دریافت میں

کیا کہیں ہے کون سی شے زندگی

Recitation

بولیے